Maktaba Wahhabi

62 - 111
بدل ہو گا۔''[1] بنابریں عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنا، امر باطل ہے۔ اس سے حکم شریعت میں تبدیلی لازم آتی ہے، مرد کا جو حق ہے وہ عورت کو مل جاتا ہے اور عورت جو مرد کی محکوم ہے، وہ حاکم (قواّم) بن جاتی ہے اور مرد اپنی قوّامیت کو (جو اللہ نے اسے عطا کی ہے) چھوڑ کر محکومیت کے درجے میں آ جاتا ہے، یا بالفاظِ دیگر عورت طلاق کی مالک بن کر مرد بن جاتی ہے اور مرد عورت بن جاتا ہے کہ بیوی اگر اسے طلاق دے دے تو وہ سوائے اپنی بے بسی اور بے چارگی پہ رونے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ ﴿تِلكَ إِذًا قِسمَةٌ ضيزىٰ 22 ﴾... سورة النجم چند شبہات و اشکالات کا ازالہ پہلا اشکال اور اس کی وضاحت بعض علماء آیتِ تخییر سے تفویض طلاق کا جواز ثابت کرتے ہیں، حالانکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔آیتِ تخییر سے مراد وہ واقعہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اَزواجِ مطہرات کے درمیان پیش آیا کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مالِ غنیمت کی و جہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی تو ازواجِ مطہرات نے بھی اپنے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزو‌ٰجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِ‌دنَ الحَيو‌ٰةَ الدُّنيا وَزينَتَها فَتَعالَينَ أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّ‌حكُنَّ سَر‌احًا جَميلًا 28 ﴾[2] ''اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا اور اس کی زینت کی طالب ہو، تو آؤ میں تمھیں کچھ متعہ (فائدہ) دے کر تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی طلاق دے دیتا ہوں۔'' جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت تمام ازواجِ مطہرات
Flag Counter