کو اختیار دے دیا کہ تم دنیا چاہتی ہو یا آخرت؟ اگر دنیا کی آسائشیں مطلوب ہیں تو میں تمھیں طلاق اور کچھ متعۂ طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں لیکن سب نے دنیا کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد ہی میں رہنے کو پسند کیا۔ یہ 'آیتِ تخییر 'کہلاتی ہے۔ اس سے تفویض طلاق کا اثبات نہیں ہوتا کیونکہ اس میں تو اُن کے مطالبات کے جواب میں اُنھیں یہ اختیار دیا گیا کہ اگر تمھیں اپنے مطالبات پورے کرانے پراصرار ہے تو میں زبردستی تمھیں اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا، میں تمھیں طلاق دے دیتا ہوں، قرآن کے الفاظ واضح ہیں: ﴿فَتَعالَينَ أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّحكُنَّ سَراحًا جَميلًا 28 ﴾ ''آؤ میں تمھیں متعۂطلاق اور طلاق دے کر چھوڑ دیتا ہوں۔'' جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کے بجائے دنیا کی آسائشیں پسند کرتیں تو آپ ان کو طلاق دے کر اپنے سے جدا کر دیتے...از خود ان کو طلاق نہ ہوتی۔ اس سے مستقل طور پر عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنے کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اگر کچھ ایسے مطالبات پیش کرے جس کو خاوند پورا نہ کر سکتا ہو تو وہ بیوی سے یہ کہے کہ میں یہ مطالبات پورے نہیں کر سکتا، اگر تو انھی حالات کے ساتھ گزارا کر سکتی ہے تو ٹھیک ہے، بصورتِ دیگر میں طلاق دیکر اچھے طریقے سے تجھے فارغ کر دیتا ہوں۔ اگر عورت دوسری (طلاق کی) صورت اختیار کرتی ہے تو اسے طلاق نہیں ہو جائے گی بلکہ خاوند اس کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے طلاق دے تبھی طلاق، یعنی علیحدگی ہو گی۔ غرض اس صورت کا تفویض طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس آیت سے استدلال یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ دوسرا شبہ اسی سے ملتی جلتی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ جھگڑے کے موقع پر خاوند عورت کو یہ کہہ دے: أَمْرُكِ بِیَدِكِ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے) اس سے بھی بعض لوگوں نے تفویض طلاق کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ حالانکہ یہ طلاق کنائی کی ایک صورت بنتی ہے۔ اور اکثر فقہا اس کے جواز کے قائل ہیں لیکن یہ تفویض نہیں بلکہ طلاق ہے۔ |