جو شرط ایسی ہو گی جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے، وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہوں۔ اللہ کا فیصلہ زیادہ حق دار ہے (کہ اس کو مانا جائے) اور اللہ کی شرط زیادہ مضبوط ہے (کہ اس کی پاسداری کی جائے) ولاء اسی کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا۔'' اس حدیث میں آپ نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرما دیا کہ جو شرط بھی کتاب اللہ میں نہیں ہے، یعنی شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کے خلاف ہے، وہ باطل ہے اور باطل کا مطلب کالعدم ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تبارک تعالیٰ نے احکامِ وراثت بیان فرما کر ان کی بابت کہا کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں اور اس کے بعد فرمایا: ﴿وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا...14﴾[1] ''جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا۔'' اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے مقررہ حصہ ہائے وراثت میں تبدیلی کرنا، اللہ کی حدوں سے تجاوز اور اللہ رسول کی نافرمانی ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں۔ اسی طرح اللہ نے طلاق اور خلع کے احکام بیان کرکے فرمایا: ﴿تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ 229 ﴾[2] ''یہ اللہ کی حدیں ہیں، سو تم اُن سے تجاوز نہ کرو اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا، وہ لوگ ظالم ہیں۔'' اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ طلاق و خلع کے احکام، حدود اللہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں تبدیلی کرنا، یعنی عورت کو حق خلع کے بجائے، جوکہ اسے اللہ نے دیا ہے، طلاق کا حق تفویض کر دینا،حدود اللہ میں تجاوز کرناہے جس کا حق کسی کو حاصل نہیں، یہ سراسر ظلم ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔ چنانچہ آیت مذکورہ: ﴿تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها﴾کے تحت مولانا عبدالماجد دریا آبادی مرحوم نے لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے: ''یہ تاکید ہے اس امر کی کہ احکامِ شرعی میں کسی خفیف جزئیہ کو بھی ناقابل التفات نہ سمجھا جائے اور شریعت جیسے بے انتہا منظم فن میں ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ مشین جتنی نازک اور اعلیٰ صَنّاعی کا نمونہ ہو گی، اسی قدر اس کا ایک ایک تنہا پرزہ بھی اپنی جگہ پر بے |