ناشکری کا ارتکاب کرتی ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) وہ خاوند کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ایک عورت کے ساتھ احسان کرتے رہو، پھر وہ تمہاری طرف سے کوئی ایسی چیز دیکھ لے جو اسے ناگوار ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھے گی کہ میں نے تو تیرے ہاں کبھی بھلائی اور سکھ دیکھا ہی نہیں۔''[1] جب ایک عورت کی افتادِ طبع اور مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ عمر بھر کے احسان کو مرد کی کسی ایک بات پر فراموش کر دیتی ہے تو اسے اگر حق طلاق مل جاتا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس آسانی کے ساتھ وہ اپناگھر اُجاڑ لیا کرتی؟ عورت کی اس کمزوری، کم عقلی اور زود رنجی ہی کی و جہ سے مرد کو اس کے مقابلے میں صبرو ضبط، تحمل اور قوت برداشت سے کام لیتے ہوئے عورت کے ساتھ نباہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے ، کیونکہ عورت کی یہ کمزوریاں فطری ہیں، کسی مرد کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ قوت کے زور سے اُن کمزوریوں کو دور کرکے عورت کو سیدھا کر دے یاسیدھا رکھ سکے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الـْمَرأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِیْمُهُ کَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَکْتَهُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ)) [2] ''عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت مانو، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور سب سے زیادہ کجی اوپر کی پسلی میں ہوتی ہے، پس اگر تم اُسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور یوں ہی چھوڑ دو گے تو کجی باقی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت قبول کرو۔'' شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ''مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ عورت کے مزاج میں کجی (ٹیڑھا پن) ہے (جو ضد وغیرہ کی شکل میں بالعموم ظاہر ہوتی رہتی ہے)، پس اس کمزوری میں اسے معذور سمجھو کیونکہ یہ |