پیدائشی ہے، اسے صبر اور حوصلے سے برداشت کرو اور اُن کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرو۔ اگر تم اُنھیں سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اُن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکو گے جبکہ اُن کا وجود انسان کے سکون کے لیے ضروری ہے اور کشمکشِ حیات میں اُن کا تعاون ناگزیر ہے، اس لیے صبر کے بغیر اُن سے فائدہ اٹھانا اور نباہ ناممکن ہے۔''[1] بہرحال عورت کی یہی وہ فطری کمزوری ہے جس کی و جہ سے اللہ نے مرد کو تو حق طلاق دیا ہے لیکن عورت کو نہیں دیا۔ عورت کا مفاد ایک مرد سے وابستہ اور اس کی رفیقۂحیات بن کر رہنے ہی میں ہے، نہ کہ گھر اجاڑنے میں۔ اور عورت کے اس مفاد کو عورت کے مقابلے میں مرد ہی صبر و ضبط اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرکے زیادہ ملحوظ رکھتا اور رکھ سکتا ہے۔ بنابریں اسلام کا یہ قانونِ طلاق بھی دراصل عورت کے مفاد ہی میں ہے، گو عورت آج کل پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کے لیے حق خلع تاہم اسلام چونکہ دین فطرت اور عدل و انصاف کا علم بردار ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دوسرے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا ہے کہ کسی وقت عورت کو بھی مرد سے علیحدہ ہونے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، جیسے خاوند نامرد ہو، وہ عورت کے جنسی حقوق ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان ونفقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا قادر تو ہو لیکن بیوی کو مہیا نہ کرتا ہو، یا بلاو جہ اس پر ظلم و ستم یا مار پیٹ سے کام لیتا ہو، یا عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرتی اور محسوس کرتی ہو کہ وہ اس کے ساتھ نباہ یا اس کے حقوقِ زوجیت ادا نہیں کر سکتی۔ ان صورتوں یا اِن جیسی دیگر صورتوں میں عورت خاوند کو یہ پیشکش کرکے کہ تو نے مجھے جو مہر اور ہدیہ وغیرہ دیا ہے، وہ میں تجھے واپس کر دیتی ہوں تو مجھے طلاق دے دے، اگر خاوند اس پر رضا مند ہو کر اُسے طلاق دے دے تو ٹھیک ہے لیکن اگر خاوند ایسا نہیں کرتا تو اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس قسم کی صورتوں میں خاوند سے گلوخلاصی حاصل کر لے، اِس کو خلع کہتے ہیں۔ یہ قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ سے ثابت |