Maktaba Wahhabi

46 - 111
اس اُمت میں شرک پایا ہی نہیں جاسکتااورجس میں واقعتاً شرک پایا جاتا ہو، وہ بھی مشرک نہیں ہے۔ بلکہ ان حضرات کے دعویٰ کے برخلاف یہ حدیث تولوگوں میں شرک کے پائے جانے اور ایسے لوگوں کے مشرک ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس حدیث کے مطابق تو جس پر تہمت لگائی گئی یا پھر تہمت لگانے والا،ان دونوں میں سے ایک مشرک ہے لہٰذا ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ اس امت کے لوگوں میں شرک نہیں پایا جاسکتا ان کی اپنی اس پیش کردہ دلیل سے ہی باطل ٹھہرا۔ اور پھر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث حافظ قوام السنۃ ابوالقاسم اسماعیل بن محمد بن الفضل تیمی اصبہانی (المتوفی 535ھ) کی کتاب الحجة في بیان المحجة وشرح عقیدة أهل السنة[1] میں بھی موجود ہے اور اس میں شرک کے بجائے کفر کے الفاظ ہیں: ((رمیٰ جاره بالکفر وخرج علیه بالسیف)) ''اس نے اپنے پڑوسی پر کفر کی تہمت لگائی اور اس پر تلوار کے ساتھ حملہ کردیا۔'' تو میں نے پوچھا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! "أیهما أولىٰ بالکفر: الرامي أو المرمي؟" ان دونوں میں سے کفر کے زیادہ لائق کون ہے تہمت لگانے والا یا جس پر تہمت لگا ئی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((بل الرامي)) بلکہ تہمت لگانے والا (کفر کے زیادہ لائق ہے)۔ اور اس مضمون کی اور بھی احادیث مروی ہیں، ایک میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ)) [2] ''جو شخص اپنے (مسلمان ) بھائی کو کافر کہے، تو ان دونوں میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا ۔اگر وہ واقعتاً ایسا ہےتو (کفر اسی پر رہےگا) ورنہ یہ کافرکہنے والے پر لوٹ آئے گا۔'' برصغیر کے اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ مسلمانوں پر تعین کرکے کفر کی تہمت لگانے والے اور حملے کرنے والے کون ہیں، فتاویٰ رضویہ، حسام الحرمین، تمہید الایمان، ملفوظات اور
Flag Counter