Maktaba Wahhabi

45 - 111
وقتاً فوقتاً شرک واقع ہوتا رہتا ہے ،لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ اس کا خاتمہ فرما دیتے ہیں۔ پانچواں مغالطہ اسی طرح ان حضرات کی طرف سے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل حدیث بھی بیان کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن ما أتخوف علیکم رجل قرأ القرآن حتی إذا رئیت بهجته علیه وکان ردئا للإسلام غیره إلىٰ ما شاء اللّٰه فانسلخ منه ونبذه وراء ظهره وسعی على جاره بالسیف ورماه بالشرك، قال: قلت یا نبی اللّٰه ! أیهما أولى بالشرك: المرمي أم الرامي؟ قال: بل الرامي)) [1] ''بلا شبہ میں تم پر ایسے آدمی سے خوف زدہ ہوں جس نے قرآن پڑھا، یہاں تک کہ جب اس پر اس کی رونق نظر آنے لگی اور وہ اسلام کا مددگار تھا تو اللہ تعالیٰ نے جس طرف چاہا اس کوپھیر دیا، پس وہ اس سے نکل گیا اور اس نے اُس کو پس پشت پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار سے حملہ کردیا اور اس پر شرک کی تہمت لگا دی، تو میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان دونوں میں سے شرک کے زیادہ لائق کون ہے جس پر تہمت لگائی گئی یا کہ تہمت لگانے والا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ تہمت لگانے والا۔'' محترم قارئین! اس حدیث کو بار بار پڑھیں اور غور کریں کہ اس میں کہیں بھی اس بات کی طرف اشارہ تک نہیں ہے کہ اس اُمت میں شرک نہیں پایا جاسکتا۔ البتہ یہاں تو ایسے بےگناہ انسان جو شرک میں مبتلا نہیں ہے، پر شرک کی تہمت لگانے اور اس بنا پر اس پر حملہ کرنے والے کی مذمت ہے اور ظاہر ہے کہ کسی بے گناہ پر تہمت لگانا اور بہتان بازی غلط ہے اور اس کے حق میں کوئی بھی نہیں ہے بلکہ تہمت لگانے والا خود مجرم ہے لیکن یہاں یہ کہاں سے نکلا کہ
Flag Counter