Maktaba Wahhabi

109 - 111
قائم ہوتے ہیں۔اللہ کے عاجز بندے نرم رویہ اختیار کرتے ہیں ۔وہ شائستہ اور مؤدب انداز اپناتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف میں قرآن مجید ارشاد فرمایا ہے : ﴿وَعِبادُ الرَّ‌حمـٰنِ الَّذينَ يَمشونَ عَلَى الأَر‌ضِ هَونًا...63﴾[1] ''اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکونت کے ساتھ چلتے ہیں۔'' 7۔رفتار و آواز میں اعتدال مال و دولت ، جاہ و منصب اور طاقت کی وجہ سے بعض دفعہ انسان کو کبر و غرور کا رَوگ لگ جاتا ہےجس کا اظہار اُس کی چال اور آواز کے بدل جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنی آخری نصیحت میں چال اور آواز میں میانہ روی کی تلقین فرمائی : ﴿وَاقصِد فى مَشيِكَ وَاغضُض مِن صَوتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ‌ الأَصو‌ٰتِ لَصَوتُ الحَميرِ‌ ﴿19﴾[2] ''اور اپنی رفتارمیں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر ، یقیناًآوازوں میں سب سے بد تر آواز گدھے کی آوازہے ۔'' رفتار اور آواز کے آداب سے مرصع ہونے کے بعد ہی انسان بے ادبی اور بد اخلاقی کی لعنت سے دور رہ سکتا ہے۔کیونکہ یہ سب حیوانی صفات ہیں جو انسان کو انسانیت سے گرا دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ اخلاقی برائی بھی نوجوانوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ہمارے نوجوان عجلت کا شکار ہے۔اپنی وضع قطع ، چال ڈھال میں کافروں کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں جس کے باعث نہ تو اخلاقی صفات سے مزّین ہیں اور نہ منظّم ۔اس لیے نہ صرف نوجوانِ دین کو اپنی رفتار میں اعتدال برتنا چاہئے بلکہ آواز میں بے اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرنا ہے۔وہی قوم یا گروہ منظم مانا جاتا ہے جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل ہوں۔انسان اپنی انھی صفات ہی کی وجہ سے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے۔اس لیے بے ادب اور بے ربط آواز بہتر ہوتی تو گدھوں کی آواز سب سے
Flag Counter