امیراور غریب ، سرمایہ داراور مزدور میں ایک طویل خلیج حائل ہو گئی ہے۔اس کا براہِ راست اثر نئی نسل پر ہو رہا ہے۔عیاشیوں کے نام پر لٹائی جانے والی دولت ، فیشن ، نمائش اور خاص طور پر اپنی کمیونٹی میں شہرت اور چرچا کروانے میں نوجوان اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ اس کشمکش کے سبب عاجزانہ رویوں کو چھوڑ کر تکبر جیسی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ زندگی سے متعلق بنیادی نصیحتوں کے بعد حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے فرزندکو غرور سے اجتناب برتنے کی تلقین کی نیز یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پسند نہیں فرماتا۔ قرآنِ مجید میں اللہ کا فرمان ہے : ﴿إِنّى وَجَدتُ امرَأَةً تَملِكُهُم وَأوتِيَت مِن كُلِّ شَىءٍ وَلَها عَرشٌ عَظيمٌ ﴿23﴾[1] ''بے شک وہ (اللہ تعالیٰ ) تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا ۔'' عارضی آسائشوں کو ذاتی جاگیر تسلیم کر کے آج کا نوجوان اپنے بے جا تکبر کے سبب اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جارہا ہے اوریوں اپنی مقاصد ِ حیات سے بے پرواہ ہے۔حضرت لقمان علیہ السلام کی اس اخلاقی نصیحت کی دورِ جدید کے مسلمانوں کو بے حد ضرورت ہے۔نوجوانوں میں محبت ، اتحاد، اخوت کی کمی کی بنیادی وجہ یہ اخلاقی گراوٹ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا : ((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللّٰه جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ)) [2] ''جنت میں وہ شخص نہیں جائے گا ، جس کے دل میں ذرا سا بھی کبر ہو ۔اس پر ایک شخص نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ہر شخص یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں ، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جمیل ہے ، اور جمال کو پسند کرتا ہے ، کبر و تکبر تو حق سے سر کشی اور لوگوں کی تحقیر یعنی لوگوں کو ذلیل سمجھنا ہے۔'' اسلام تمام مسلمانوں کو برابری کا درس دیتا ہے ، جبکہ تکبر کے نتیجے میں امتیاز کے درجے |