شدتِ جذبات کا نام ہے اور جذبات سے مغلوب یہ نوجوان اکثر بے صبری کا مظاہرہ زیادہ کرتے ہیں۔شرعی حدود سے تجاوز ، پیسہ کمانے کے شارٹ کٹ راستے ، فراڈ ، ڈکیتیاں اور تعلیمی میدان میں ناجائز ذرائع کا استعمال ، یہ درحقیقت بے صبری کی ایک عملی قسم ہے۔اُمت ِ مسلمہ کو پارہ پارہ کرنے میں ایک بڑی وجہ عدمِ برداشت ہے۔نفرت ، عداوت، انتقام ، لالچ ، حسدجیسی برائیوں نے اِن نوجوانوں کو بگاڑ رکھا ہے ، کہ وہ صبر جیسی عزیمت کو بد دلی اور کم ہمتی گردانتے ہیں۔حالانکہ صبر بہادری ہے، اس لیے صبر کی تلقین کے ساتھ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے یہ بھی فرمایا کہ یہ بڑے اونچے کاموں میں سے ہے۔ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذٰلِكَ لَمِن عَزمِ الأُمورِ ﴿43﴾[1] ''اور جو صبر کرے ، اور قصورمعاف کر دے تو یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے ۔'' اسلام کا ایک ایک کارنامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر و استقلال اور عزم و استقامت کا شاہکار ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔مکی دور کے تیرہ سا ل کی آزمائش سے لے کر تمام غزوات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کے عملی ثبوت ہیں،یہاں تک کہ اسلام کا نفاذ ہو جاتا ہے۔آج بھی صبر جیسی صفت کو اپنا کر نوجوانانِ دین اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔انفرادی معاملات کے علاوہ ایک نوجوان جب دین کا راستہ اختیار کرتا ہے، تو اسے بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کہیں تو سیکولر معاشرہ اور کہیں موجودہ مسلمانوں کامتضاد رویہ، اسے فرائض کی ادائیگی سے روکتا ہے۔چنانچہ مسلم نوجوان کو صبر و استقلال اور استقامت میں اُس عظیم نوجوان صحابہ رضی اللہ عنہم کی مثا ل کو سامنے رکھنا چاہیئے جو حبشی اور غلام تھے۔یہ صحابی حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے ، جو اُمیہ بن خلف کے غلام تھے۔اُمیّہ ان کی گردن میں رسّی ڈال کر لڑکوں کو دے دیتا اور وہ اُنھیں مکے کے پہاڑوں میں گھماتے پھرتے تھے ، یہاں تک کہ گردن پر رسّی کا نشان پڑ جاتا ، خود اُمیہ انھیں باندھ کر ڈنڈے مارتا تھا اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا تھا۔کھانا پانی بھی نہ دیتا ہےبلکہ بھوکا پیاسا رکھتا تھااور اس سے بھی بڑھ کر ظلم یہ کرتا کہ جب دوپہر کو گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ |