ہوں گے۔یہ برملا حق کا اظہار کرنے والے، نیکی کا حکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے لوگ ہوں گے۔ان کی مدد سے ہاتھ کھینچنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے اُنھیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ '' یہی جماعت 'الفرقۃ الناجیۃ' ہےیعنی کامیاب و کامران جماعت۔نوجوانوں میں کامیابی و کامرانی کا تقاضا ہے کہ سچائی سے محبت کر کے اس جذبہ اور عمل کو اپنا کر دنیا کو کھوئے ہوئے امن و سلامتی سے ہم کنار کریں۔ 5۔مصائب پر صبر ایک نوجوان کو دین و دنیا کے اُمور کی انجام دہی کے وقت مصیبتوں اور پریشانیوں سے دوچار ہو نا پڑتا ہے۔اس لیے اقامتِ صلاۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فورًابعد حضرت لقمان علیہ السلام اپنی نوجوان بیٹے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں: ﴿وَاصبِر عَلىٰ ما أَصابَكَ ۖ إِنَّ ذٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ 17﴾[1] ''اور جو مصیبت تم پر آ جائے صبر کرنا ، بےشک یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے '' صبر مومن کا ہتھیار ہے۔نوجوانی کی دہلیز کو چھوتے ہی ایک نوجوان کو اپنی زندگی کے اَن گنت مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دراصل صبر آزمائش کی ایک کڑی ہے ، کبھی اللہ تعالیٰ انسان کو آزمانے کے لیے اور کبھی راہِ راست پر لانے کے لیے اسے امتحان میں مبتلا کرتا ہے، وہ وقت انسان کے صبر کا ہوتا ہے۔صبر انسان کے لیے ہر حال میں اُمید کا چراغ ہے۔قرآنِ مجید کی سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿استَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلوٰةِ...153﴾[2] ''تم مدد مانگو ، صبر اور نماز کے ساتھ ۔'' یعنی ثابت قدمی اور صبر بذاتِ خود بہت بڑی مدد ہے ، اور اللہ سے رجوع کرنے پر اللہ کی مدداس معاملے میں شامل حال ہو جاتی ہے ۔اس طرح انسان تباہی سے بچ جاتا ہے۔نوجوانی |