Maktaba Wahhabi

104 - 111
کے کشاکش سے یہ نوجوان مغلوب ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں ، وہ کسی مقصد اور معنویت سے یکسر محروم ہو گئی۔اسلام دیگر تمام مذاہب پر اسی وجہ سے فوقیت رکھتا ہے کہ وہ تمام لوگوں سے منصفانہ سلوک کرتا ہے۔ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا ، برائی کو دیکھتے ہی اسے روکنا اور جو نصب العین مسلمان بھول چکے ہیں ، اُنھیں اس نصب العین پر قائم رکھنا یہی ہمارے مذہب کی تعلیم ہے۔افسوس کہ ہم اپنی سامنے مسلمانوں کا قتلِ عام دیکھ رہے ہیں ،برما کے مسلمانوں سے لے کر فلسطین تک ، کشمیر اور کراچی سمیت بے شمار لاشیں ہیں،مگر کہیں کوئی صدا نہیں اٹھتی کہ یہ روزکے معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھلائی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے نہیں روکتا!! ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَكُمْ)) [1] ''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور ضرور برائی سے روکو،ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے ،پھرتم اس سے دعائیں کرو گے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیں گی ۔'' اللہ تعالی غفور رحیم ہے،مگر معاملات چاہے انفرادی ہوں یا اجتماعی ، بدی اور استبداد کے آگے ڈٹ جانا ہی با ہمّت اور پر عزم نوجوانوں کی نشانی ہے۔تاہم اس اختیار کو سونپنے میں ریاست بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ اس سلسلے میں خود میں عملی نکھار امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پہلا تقاضا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لاَ تَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللّٰه ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللّٰه وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ)) [2] ''اس اُمّت میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی جماعت موجود رہے گی ، جو حق پر جمے رہیں گے ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت حاصل کرنے والے اور حمایت یافتہ لوگ
Flag Counter