''نماز قائم کرو ، کیونکہ یہ بے حیائی اور برے کام سے روکتی ہے ۔'' موجودہ دور فتنوں کا دور ہے ، جس میں ایک طرف اسلام مخالف سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور دوسری طرف نفاذِ شریعت کو عمل میں لانا ہے۔امت مسلمہ کے یہ نوجوان اپنے پختہ ارادوں سے اس عزم میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔جب کہ وہ حقیقی رہنما اور رہبر اللہ تعالیٰ کو مان لیں اور اس کی عبادت بجا لائیں۔ 4۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اہل عزیمت کا کام ہے۔وہی معاشرے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جن میں برائی اور بھلائی میں تفریق قائم رہے۔ حضرت لقمان کے نصائح میں اگلی نصیحت یہ تھی: ﴿وَأمُر بِالمَعروفِ وَانهَ عَنِ المُنكَرِ...17﴾[1] ''اور بھلائی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ۔'' امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ جہاں معاشرتی اصلاح کرتا ہے، وہاں انسان میں خود بھی بیداری کا احساس اُجاگر رکھتا ہے۔مگر آج کے مسلمان نوجوان طبقے نے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا ہے۔بلکہ مغربی ذہنیت کے زیرِاثر اس امر کو Interference (دخل در معقولات) سمجھ لیا گیا ہے۔Interference کی آڑ میں نوجوان اپنے اوپر لاگو فرائض سے بھی دستبردار ہو رہے ہیں۔جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک بالکل واضح ہے: ((مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ)) [2] '' جب تم کوئی برائی دیکھو تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دو ، اگر ایسا نہ کر سکو تو زبان سے روک دو اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو دل میں برا جان لو اور یہ ایمان کا کم تر درجہ ہے۔'' جدید دنیا پر بے چینی اور اضطراب کے جو بادل چھائے ہوئے ہیں اور جس طرح برائیوں |