کریم میں متعدد مقامات پر نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔نماز نہ صرف فرائض کا حصہ ہے بلکہ موجودہ حالات میں بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے مسائل ، تناؤ، ڈیپریشن ، شدت پسندی ، غم و غصہ اور اشتعال انگیزی سے نجات کا حل بھی ہے۔کیونکہ اس میں سکون ہے ، جس کی آج کی نوجوان نسل کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ نے سکون کا ماخذ اپنی ذات کو قرار دیا ہے۔اس لیے فرمایا: ﴿وَأَقِمِ الصَّلوٰةَ لِذِكرى 14 ﴾''یعنی میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔'' ایک اور مقام پر فرمایا : ﴿أَلا بِذِكرِ اللَّهِ تَطمَئِنُّ القُلوبُ 28﴾ ''اللہ کی یاد ہی اطمینانِ قلب کا باعث ہے۔'' نماز کے ایک معنی قریب ہو نے کے ہیں۔گویا نماز پنجگانہ ادا کرنے والا اللہ سے قریب ہوتا ہے۔ایک حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللّٰه فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ)) [1] ''اللہ تعالیٰ سات قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا۔ ان میں سے ایک وہ نوجوان ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پرورش پائی ہو ۔'' نوجوانی کے قیمتی دور میں وقت سے بڑی کوئی دولت نہیں۔نوجوانی کی نماز قربتِ الٰہی کا ذریعہ اور وقت کی پابندی پیدا کرتی ہے۔جدید دور کی اکثریت نماز جیسی اہم عبادت اور فرض سے کنارہ کش ہے،اسی لیے ان کی زندگی منظم نہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا استَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلوٰةِ ۚ ... 153 ﴾[2] ''اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو ۔'' نوجوانوں میں چونکہ شدتِ جذبات کی وجہ سے زیادہ جلد برائیوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تا ہے۔نماز نوجوان مسلمان کو غیر اخلاقی سر گرمیوں اور بے راہ روی سے باز رکھتی ہے جیسے کہ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے :﴿وَأَقِمِ الصَّلوٰةَ ۖ إِنَّ الصَّلوٰةَ تَنهىٰ عَنِ الفَحشاءِ وَالمُنكَرِ...45﴾[3] |