بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر جمہوریت اور حاکمیتِ الٰہیہ درپیش حالات کے تناظر میں اہلیانِ پاکستان کے دل ودماغ اورقومی اوقات وصلاحیتیں اس قدر بے مصرف کیوں ٹھہریں کہ تین برس ہونے کو آئے ہیں، آئے روز صدرِ پاکستان کی بددیانتی کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان، حکومت کو حکم دیتی ہے کہ قوم کاپیسہ واپس لانے کا خط لکھا جائے لیکن وقت کا صدر اور پیپلز پارٹی کا شریک چیئرمین دستوری استثنا سے فائدہ اُٹھانے پرہی مصر ہے۔6/اکتوبر 2007ءکوبدنام زمانہ این آر او(قومی مفاہمتی آرڈیننس) جاری ہوتا ہے،16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بنچ کا مختصر فیصلہ آتا ہے، پھر دسمبر2011ء میں مفصل فیصلہ بھی آجاتا ہے۔ بار بار حکومت سے اصرا رکیا جاتا ہے، وزیر اعظم پر توہین عدالت کا الزام بھی لگتا ہے۔ وزیر اعظم شہید ِعدالت بننے کا منتظر ہے، عدالت کے احترام اور اُس کے اپنے ہونے کے برملا دعوے کرتا ہے لیکن کبھی عدالت کے حکم پر عمل درآمد بالکل نہیں کرتا۔اب صاف اور برمَلا یہ کہتا ہے کہ پارٹی مفادات اور اپنے چیئرمین کے خلاف کوئی اقدام نہیں کروں گا، چھ ماہ کی قید منظور ہے۔ سیاسی وفاداری اتنی اہم ٹھہری ہے کہ اب تو وزیر اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُس کے فرزند سیدموسٰی گیلانی نے بھی بلاول بھٹو کے منہ بولے بھائی ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ کہاں گئے عہدے اور منصب قبول کرتے وقت آئینی حلف نامے اور کہاں گیا قومی مفاد اور دین واخلاق؟ پھر بھی ہماری قوم نادان ہے کہ ایسے ہی سیاسی مہروں کو منتخب کرتی چلی آتی ہے۔ قوم کاپیسہ پہلے برباد کیا گیا، اب قوم کا وقت اور ذہن بے کار مصارف میں اُلجھایا جارہا ہے۔ کیا یہی حکومت کرنے کے طریقے ہیں، انہی طریقوں سے قومیں شادکام ہوتی ہیں؟ عدالت کی بھی مہربانی کہ پورے چار سال کے بعد خدا خدا کرکے فیصلہ تو سنادیا، صدشکر کہ ابھی اسی دورِ حکومت میں ہی فیصلہ آگیا، وگرنہ تو حکومتیں اور افراد گزر جاتے ہیں اور مغرب کے دئیے عدالتی نظاموں کے منصب دار گڑے مردے اُکھاڑنے لگ جاتے ہیں۔ آج اگر |