گیا کہ ریاست درحقیقت ایک پیچیدہ ساخت ہوتی ہے جس کا مقصد مخصوص علمیت و عقلیت کے مطابق احکامات کا صدور و نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ چانچہ یہ فیصلہ کہ آیا نظامِ اطاعت میں کتنی تبدیلی کے بعد نظام اطاعت کی ’بنیاد‘ تبدیل ہوگئی ہے اور اب خروج (بذریعہ قوتِ اصلاح ) کے لئے نکلنا ضروری ہوگیا، ایک مشکل امر ہوتا ہے اور لامحالہ ایک مجتہد فی مسئلہ ہے۔ خروج کاو قت طے کرنے کا مسئلہ محض فقہاے اسلام ہی نہیں بلکہ جمہوری مفکرین کے لئے بھی ایک خاصا مشکل امر ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک جمہوری انقلاب برپا کرنے کیلئے تو ہر قسم کی جدوجہد (بشمول مسلح جدوجہد) جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت تو عقل و فطرت کا تقاضا ہے، البتہ جمہوریت کے خلاف کوئی انقلابی جدوجہد جائز نہیں، لیکن یہ طے کرنا کہ کب اور کہاں آمرانہ جمہوری ریاست بنانے کا وقت آگیا ہے، ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے جس کے ضمن میں یہ مفکرین ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں (مثلاً کچھ امریکی مفکرین کا خیال ہے کہ عرب دنیا یا پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کا ساتھ دینے سے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں حالات کی روشنی میں ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے) 5. اسی طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں کو فقہا کے اقوال کی روشنی میں جانچتے وقت یہ بات ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ تقریباً تمام ہی مسلم ریاستیں یا تو لبرل یا آمرانہ جمہوری نظم کے تحت کام کررہی ہیں اور جن کا اسلامی نظم اطاعت سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ لہٰذا ان ریاستوں کو غلط طور پر اسلامی فرض کرکے اُنہیں ان اقوال کی روشنی میں خروج سے پناہ دینا قیاس مع الفارق ہے۔ پس ائمہ سلف رحمۃ اللہ علیہم کے فتاوی کو ان کے پورے محل سے کاٹ کر الگ اور بے محل پیش کرنے کے بجائے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یہ فتویٰ کن حالات اور کن اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیا گیا تھا۔ [حصہ سوم اور چہارم آئندہ شمارہ میں ] حيــاتِ لكهــــوی حضرت مولانا معین الدین لکھوی رحمۃاللہ علیہ کے بارے میں ایک کتاب ’حیاتِ لکھوی‘ مرتب کی جارہی ہے۔ جن حضرات کو اُن کے بارے میں کچھ بھی معلوم ہو مثلاً تقاریر، تصاویر، سیاسی ومعاشرتی ، مشاہدات اور واقعات تو اُن سےاوّلین فرصت میں ارسال فرمانے کی گذارش ہے۔ ان کے شاگرد ، معتقدین، مریدین فوری طورپر اپنی نگارشات اور تاثرات بہم پہنچائیں۔شكریہ! محمد موسیٰ ایم۔ اے 32 /ایکس گلی نمبر1، گورنمنٹ کالونی، اوکاڑہ 0345-7496925 Mmusa295@yahoo.com |