میں بلند ہوا تو پہیے خانوں میں چلے گئے اور دونوں بھائیوں کو جلا کر رکھ دیا۔ ان کی درد ناک چیخیں سننے والا کوئی نہ تھا، طیارہ آسمان میں ہزاروں فٹ تک بلند ہوگیا تو نقطۂ انجماد کے باعث دونوں بھائی منجمد ہوگئے۔ طیارہ نیویارک ائیرپورٹ پر اُترا تو پہیے رن وے پر دوڑنے کے لئے خانوں سے باہر نکلے توایک ساتھ دو لاشیں ایئر پورٹ پر گریں۔ حفاظتی عملے نے لاشیں تحقیقات کے لئے FBI کے سپرد کیں۔ ایک بھائی مر چکا تھا، دوسرا زندہ تھا۔ NASA نے دوسرے بھائی کو تحویل میں لے لیا، اسے امریکی شہریت دے دی گئی۔ اب اس بات کی تحقیق ہورہی ہے کہ علت و معلول کے فلسفے کے تحت دوسرا بھائی کیسے بچ گیا؟ اللہ موجود ہے اور عقل نے عجز کا اظہار کردیا۔ 2. یہی صورتِ حال امریکہ کی ایک ریاست میں اس وقت پیش آئی جب پندرہ سال سے کومے میں محصور زندگی کے آخری سانس گننے والی عورت کے شوہر نے ہسپتال کی انتظامیہ سے کہا کہ اس عورت کا ventilater(آکسیجن ماسک) ہٹا دیا جائے تاکہ وہ اپنی وصیت کے مطابق سکون کی موت مرسکے۔ بیوی کے ماں باپ نے عدالت سے حکم امتناعی کے لئے رجوع کیا۔ عدالت نے درخواست مسترد کردی۔ امریکی قانون کے تحت شوہر کو اس فیصلے کا اختیار تھاکہ آکسیجن ماسک رکھا جائے یا ہٹا دیا جائے۔ ماں باپ نے صدر بش سے اپیل کی، صدر بش نے ہنگامی طور پر قانون میں ترمیم کی اور ایک عورت کی زندگی بچانے کے لئے سینٹ کا اجلاس بلائے بغیر قانون نافذ کردیا۔اس کارروائی میں تین دن لگ گئے عورت تین دن تک بغیر آکسیجن ماسک کے زندہ رہی۔ چوتھے دن عدالت نے ترمیم شدہ قانون کی روشنی میں ماں باپ کے حق میں امتناعی حکم جاری کردیا۔ ماسک لگادیا گیا لیکن اگلے ہی دن عورت انتقال کرگئی، آخر کیوں؟ کیا زندگی اور موت کا تعلق دوا، اسباب اور علاج سے ہے؟ یہ اسباب بلا شبہ کسی تکلیف میں کمی تو کرسکتے ہیں کیونکہ ہر درد کی دوا ہے، ہر مرض کا علاج ہے سوائے مرض الموت کے، موت وقت ِمقرر پر آتی ہے!! 3. گزشتہ سال کراچی کا ایک واقعہ اس کی زندہ مثال ہے۔تیرہ منزلہ عمارت سے ایک مزدور سر کے بل نیچے گرا۔ لوگ بچانے دوڑے، سب کا خیال تھا کہ مرگیا ہوگا، لیکن چند لمحے بعد وہ اپنے پیروں پر کھڑا تھا۔ اسے خراش تک نہیں آئی تھی، مبارک باد دینے والے ساتھیوں نے اس سے مٹھائی کا مطالبہ کیا۔ وہ سڑک پار کرکے دکان تک گیا۔ مٹھائی کا ڈبہ لے کر واپس لوٹا تو سڑک پر گاڑی نے اُسے ٹکر مار ی اور وہ اُسی وقت مرگیا ۔ |