فقہ واجتہاد تحریر: شیخ صالح الفوزان ترجمہ:شيخ عبد اللہ ناصر رحمانی [1] دوستی اور دشمنی کااسلامی معیار الوَلاء والبَراء یعنی دوستی اوردشمنی، محبت اورنفرت کے شرعی تقاضے کیا ہیں اور اس کی کیا حدود ہیں؟ اسلامی عقیدہ کا یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، اسے صحیح طور پر سمجھنا اور پھر اعتقاداً وعملاً اس کا صحیح حق ادا کردیناایمان کی تکمیل کرتا ہے، جیسا کہ فرمانِ نبو ی ہے: ((مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الإِيمَانَ )) دوستی، دشمنی، محبت اور نفرت یہ سب عبادات ہیں اور ہر قسم کی عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی سے دوستی یا محبت کارشتہ قائم کرنا ہے تو اللہ کے لیے ،اور دشمنی اور نفرت کا مظاہرہ کرنا ہےتو وہ بھی اللہ کے لیے، بس یہی اس مسئلہ کی مرکزیت ہے – سيدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أوثَقُ عُرَى الإيمانِ :المُوَالَاةُ فِي اللهِ وَالمُعَادَاةُ فِي اللهِ وَالحُبُّ فِي اللهِ وَالبُغْضُ فِي اللهِ)) [2] ’’ایمان کاسب سے مضبوط کنڈہ اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیےدشمنی ہے اور اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے نفرت کرنا ہے۔‘‘ یاد رکھئے ، عقیدہ ’الولاء والبراء‘ایمان کا سب سے مضبوط کنڈہ ہے، بلکہ صحت ِو قول ایمان کی بنیادی شرط ہے، اس عقیدہ کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں خلل یا اضطراب نواقضِ ایمان میں شمار ہوتا ہے۔ ولاء اور براء اگرچہ دونوں قلبی اعمال ہیں، لیکن ان دونوں کا مظہر بندے کے ظاہری اعمال و تصرفات ہیں، کچھ ظاہری علامات ہیں جن سے ولاء یعنی مؤمنین سے اُلفت و محبت اور براء یعنی کفار و مشرکین سے نفرت و عداوت کا اظہار ہوتا ہے،ان صورتوں اور علامات کاتفصیلی بیان اس تحریر میں موجود ہے۔ |