Maktaba Wahhabi

70 - 79
زندگی جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی میں گزرے، اس موت سے کس طرح بہتر ہوسکتی ہے جو آقائے کائنات کی اتباع میں قبول کی جائے۔ اسی نقطۂ نظر کا نقطۂ کمال سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا وہ فیصلہ تھا جو لشکرِ اُسامہ رضی اللہ عنہ اور مرتد ین سے جنگ کے موقع پر سامنے آیا، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب سے مصلحت و حکمت کے تقاضوں کے تحت سالارِ لشکر اُنیس سالہ حضرت اُسامہ بن زید کو معطل کرنے اور لشکر کی روانگی کو عارضی طور پر ملتوی کرنے کا مشورہ دیا گیا تو آپ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ لشکر اسامہ کی روانگی کا فیصلہ عرب کے بگڑتے ہوئے حالات اور زمینی حقائق [Ground Realites] کے تناظر میں صحابہ کرام اور مہاجرین اوّلین پر بہت گراں گزرا۔ فشقّ ذلك علىٰ كبار المهاجرين الأولين [1] عقل کے دائرے میں صحابہ کی رائے بظاہر درست معلوم دیتی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ جو لوگ لشکرِ اُسامہ میں جارہے ہیں وہ مسلمانوں کے چیدہ اور منتخب افراد ہیں۔ عرب کی حالت آپ کے سامنے ہے، ایسی حالت میں جمعیت ِصحابہ کو متفرق کرنا مناسب نہیں۔ ثانی اثنین رضی اللہ عنہ کا جواب تھا: لو خطفتني الکلاب والذئاب لانفذتُه کما أمَر به ِرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ’’اگر کتے اور بھیڑیے مجھے اُچک لے جائیں تب بھی میں لشکر کو اسی طرح روانہ کروں گا جس طرح کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے ہیں ۔‘‘ انصار نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی خلیفہ اوّل تک یہ بات پہنچائی کہ اگر روانگی لشکر ضروری ہے تو اُنیس سالہ حضرت اُسامہ کے بجائے کسی زیادہ تجربہ کار اور سن رسیدہ شخص کو سالار لشکر مقرر کیا جائے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ انصار کا یہ پیغام پہنچا چکے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بے تاب ہو کر کھڑے ہوگئے اور تیزی سے فرمایا: تأمرني أن أعزله’’اے خطاب کے بیٹے! تجھ کو تری ماں گم کرے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمقرر فرمایا ہے اور تم حکم کرتے ہو کہ میں ان کو معزول کردوں۔‘‘بظاہر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا رویہ عقلی منطقی زمینی حقائق،تعقل،مصلحت، مصالحت، حکمت، دانا ئی، سائنسی طریقہ کار، اعداد وشمار کی میزان اور زیرکی کے تقاضوں کے خلاف نظر آتا تھا، لیکن تاریخ میں درج ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس عزم و توکل و اطاعت اورحکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کا ایسا ظہور اس طرح ہوا کہ یہ لشکر جس قبیلے کی طرف سے گزر جاتا تھا، اس پر ایسا رعب پڑتا کہ وہ اسلام کی طرف یہ کہتے ہوئے پلٹ آتا کہ اگر اُن کے پاس قوت نہ ہوتی تو اتنی بڑی جمعیت ان کے پاس سے نہ نکلتی۔
Flag Counter