کرے، حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسے ختم کردے۔ مغرب میں کام وہ ہے جس کے نتیجے میں پیسہ حاصل ہو، اس لئے گھریلو کام میں مشغول عورتوں کو وہ کارکن Worker کے زمرے میں شامل نہیں کرتے لیکن گھر سے نکل کر کام کرکے پیسہ کمانے والی عورت کو وہ ورکرقرار دیتے ہیں اور مغرب میں ایسا کام جس کا پیسہ نہ ملے، شرمناک ترین اور بے کار کام ہے۔جسم کو انسانی ملک قرار دینے کے نتیجے میں ایک نئے تصور ِحیات نے ظہور کیا۔ اس کے نتیجے میں جدید طبّی علوم نے محیرالعقول ترقی کی، ظاہر ہے جب جسم ہی سرچشمہ خیر ہو،جسم ہی معیشت کا ذریعہ ہو، جسم سے ہی عیش و عشرت وابستہ ہو اور جسم کے بغیر حیاتِ دنیا کی کسی لذت ورونق کا تصور ہی نہ ہو اور خدائی جسم سے متعلق ہو جائے تو جسم کی پرورش و نشو و نما اور تحفظ ہی زندگی کا اہم ترین مقصد بن جاتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں مغرب نے انسان کو خدا کے درجے پر فائز کردیا۔ وہ خود خدا ہے لہٰذا اپنے جسم کے معاملات کا فیصلہ کرنے کا کلّی طور پر مجازہے۔ زندگی کی طرف والہانہ لپکنے کی بجائے حکم رسول کا اتباع لیکن عالم اسلام میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی شہادت جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھے، لشکرِ اسلام کے سپہ سالار تھے،ایک نئے صبح و شام کا دروازہ کھولتی ہے۔ وہ شام کے محاذ پر تھے کہ طاعون پھیل گیا۔ اُنہیں کوچ کا مشورہ دیا گیا تو آپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ ’’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ’’جس علاقے میں وبا پھیل جائے، وہاں سے ترکِ سکونت نہ کرنا۔‘‘ لہٰذا میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف عمل نہیں کرسکتا۔‘‘ ایک مسلم کے لئے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق عمل میں زندگی بچانے کا سوال غیر اہم ہو جاتاہے اور اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت واضح ہو جاتی ہے ۔ متعدی بیماری کی آفت زدہ بستی سے نقل مکانی، اس یقین کا دروازہ کھولتی ہے کہ بیماری کے جراثیم، ایک شخص کے ذریعے دوسری بستی اور دوسری دنیا تک منتقل ہوسکتے ہیں،لہٰذا اپنی زندگی کو خدا کا فضل سمجھ کر دوسروں کی زندگی بچانے کے لئے نقل مکانی نہ کرنا اہم فریضہ بن جاتا ہے۔اگر اللہ نے زندگی رکھی ہے تو طاعون کی بیماری میں رہنے والے بھی اس بیماری سے محفوظ رہتے ہیں۔ ایک مؤمن کے لئے اپنی زندگی کے تحفظ سے زیادہ اہم شے حکم رسول کی پیروی اور اس اتباع میں دوسرے کی زندگی کا تحفظ ہے خواہ اس کوشش میں اس کی جان چلی جائے ۔ ایک مسلمان کے لئے جب بھی زندگی اور حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان انتخاب کا مرحلہ درپیش ہو تو وہ حکم رسالت پر عمل کرنے کو زندگی سمجھے گا اوراس راہِ عمل میں خونِ شہادت اسے زندگی سے زیادہ عزیز ہوگا۔اصل زندگی تووہ ہے جو اتباعِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بسر ہو۔ وہ |