وہ افراد جو محبت اور عداوت دونوں کے مستحق ہیں اس سے مراد وہ ؤمن ہیں کہ جن میں بوجوہ کچھ نافرمانیاں پائی جاتی ہیں لیکن عقیدہ صحیح ہے۔ یہ لوگ اپنے حسن عقیدہ اور دولتِ ایمان کی وجہ سے محبت کیے جانے کے قابل ہیں، لیکن بعض نافرمانیوں کے مرتکب ہونےکی بنا پر ناراضگی کے مستحق ہیں۔شرط یہ ہے کہ ان کی نافرمانی کفر یا شرک کی حد کو نہ پہنچتی ہو۔ کیونکہ اگر ان کی نافرمانی کفر یا شرک کی حدود تک پہنچ گئی تو پھر یہ لوگ بھی دعویٰ ایمانی کے باوجود مکمل نفرت اوربغض کے مستحق ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے ساتھ خیرخواہی کی جائے اور جن نافرمانیوں کاارتکاب کرتے ہیں، ان کا انکارکیا جائے۔ان لوگوں کی نافرمانیوں پرخاموش رہنا جائز نہیں بلکہ ان کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عظیم جذبہ خیرخواہی کا بھرپور برتاؤ ضروری ہے جو حکمت اور موعظہ حسنہ کے تقاضے پورے کرتا ہو۔اور اگر ان کی معصیت ایسی ہو جو شرعی حد کو واجب کرتی ہے تو پھر اس حد یاتعزیر کے نفاذ میں بھی تا آنکہ اپنی معصیت سے باز آکر توبہ نہ کرلیں،خیرخواہی ہے۔ایسے لوگوں سےمکمل بغض ، ناراضگی اور نفرت روانہیں ہے، جیسا کہ خوارج کا شیوہ ہے۔ بلکہ ان کی بابت اعتدال کا دامن تھامے رہنا چاہیے، چنانچہ حسن عقیدہ کی بنا پر دوستی اور محبت کا برتاؤ کیاجائے اور معصیتوں کے ارتکاب کی بنا پر ناراضگی و نفرت کااظہار کیا جائے اور یہی اہل السنۃ والجماعۃ کامسلک ہے۔ شریعت اسلامیہ کی ہدایت یہ ہے کہ کسی سے محبت ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور عداوت ہو تو اللہ تعالیٰ کی خاطر، یہ عقیدہ ایمان کی مضبوط ترین کڑی ہے، بلکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔‘‘ (( المرء مع من أحب )) [1] لیکن آج کل حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں، عمومی طور پر لوگوں کی دوستیاں اور دشمنیاں دنیا کی بنیاد پر قائم ہوچکی ہیں۔جس سے کوئی دنیوی لالچ یا طمع یا مفاد ہو، اس سے دوستی اور محبت کے رشتے قائم کرلیےجاتے ہیں، خواہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ابن جریر رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے: عن أبي هریرة رضي الله عنه قال:قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم :«إن الله تعالىٰ |