Maktaba Wahhabi

60 - 79
جاسکتے ہیں، مثلاً جائز قسم کی تجارت کرنا، ان سے سامان اور مفید قسم کی مصنوعات منگو انا اور ان کی ایجادات سے فائدہ اُٹھانا وغیرہ جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار راستے کی رہنمائی کے لیے ابن اریقط لیثی نامی کافر کو اُجرت پر لیا تھا۔ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض یہودیوں سے قرضہ لینابھی ثابت ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے کفار سے مختلف مصنوعات اور سامان منگواتے رہے ہیں، یہ ایک چیز کا قیمت کے بدلے خریدنا ہے، اس میں ان کا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے محبت اور دوستی اور کافروں سے بغض و عداوت کو واجب قرار دیا ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ﴾ [1] ’’جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرکے گئے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے اور جنہوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اوران کی مدد کی، وہ آپس میں ایک دوسرے کےرفیق ہیں۔‘‘ دوسرےمقام پر فرمایا: ﴿ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ1 اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِيْرٌ﴾[2] ’’اور جو لوگ کافر ہیں وہ بھی ایک دوسرے کےرفیق ہیں ، تو مؤمنو! اگر تم یہ کام نہ کرو گے تو ملک میں فساد برپا ہوجائے گا۔‘‘ اس آیت ِکریمہ کے تحت حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اگر تم مشرکین سے دور ہوکر نہیں رہو گے اور مؤمنین سے محبت نہیں کرو گے، تو لوگوں کے درمیان فتنہ واقع ہوجائے گا اور وہ اس طرح کہ مسلمانوں کا کافروں کے ساتھ اختلاط اور میل جول لازم آئے گا جس سے لوگوں کے درمیان بہت لمبا چوڑا فساد برپا ہوجائے گا۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ ہمارے اس دور میں یہ سب کچھ ظاہر ہوچکا ہے۔ واللہ المستعان!
Flag Counter