تو گویا یہاں حکم نیکی اور احسان کا ہے، نہ کہ دوستی اورمحبت کا، اس کی ایک اور مثال: ﴿وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ1ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا1 وَّ اتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ1ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ [1] ’’اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے کہ جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں ،تو ان کا کہنا نہ ماننا۔ ہاں! دنیا کے (کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے، اس کے رستے پر چلنا۔‘‘ اسماء رضی اللہ عنہا کی والدہ جو کافرہ تھیں، ان کے پاس آئیں اور ان سے ماں ہونے کے ناطے صلہ رحمی کی متقاضی ہوئیں تواسماء رضی اللہ عنہا نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ ﴾ [2] ’’ایسے لوگ تمہیں نہیں ملیں گے جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کےدشمنوں سے دوستی بھی رکھتے ہوں، خواہ ان کے باپ یا بیٹے ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ دنیاوی مکافات اور صلہ رحمی اور شے ہے اور قلبی محبت اور دوستی بالکل دوسری شےہے۔بلکہ اس صلہ رحمی اور حسن معاملہ میں کفار کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا پہلو رکھا گیا ہے اور یہ چیز دعوتِ دین کے اسالیب میں سے ہے، جب کہ محبت اور دوستی کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ محبت اور دوستی تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ کافر اپنے کفر پر صحیح ہے اورہم اس سے راضی ہیں کیونکہ ایسا شخص اس کافر کو اسلام کی دعوت نہیں دے پاتا۔ یہاں یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ کفار سے دوستی اور محبت کے حرام ہونے کا یہ معنیٰ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دنیوی معاملات کرنابھی حرام ہیں، نہیں۔ دنیاوی معاملات کئے |