’’اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں، ان کے ساتھ صبر کرتے رہو،اور تمہاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائش زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔‘‘ 10. دعاے خیر: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لیے دعا کرنا اور استغفار چاہنا بھی باہمی محبت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ﴾[1] ’’ اپنے گناہوں اورتمام مؤمن مرد اور عورتوں کے لیے مغفرت طلب کر۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پرمؤمنین کی اسی دعا کاذکرفرمایا ہے: ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ﴾ [2] ’’اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان تمام بھائیوں کوبھی بخش دے جو بحالت ایمان ہم سے پہلے گزر چکے ہیں۔‘‘ نوٹ: قرآن حکیم کی ایک آیت سے کچھ لوگوں کو ایک غلط فہمی ہوسکتی ہے، جس کاازالہ ضروری ہے، وہ آیت یہ ہے: ﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ لَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَيْهِمْ1 اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾ [3] ’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا، ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کاسلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ تم کومنع نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے غلط فہمی کی بنا پر کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں بعض کفار سے دوستی اور محبت قائم کرنےکا حکم ملتا ہے۔ حالانکہ یہ مفہوم غلط ہے۔ اس آیت کامفہوم یہ ہے کہ کفار میں سے جو شخص مسلمانوں کو اذیت پہنچانے سے باز آجائے ، نہ تو ان سے جنگ کریں اور نہ ہی انہیں ان کے گھروں سے نکالیں تو مسلمان اس کے مقابلے میں عدل و احسان کے ساتھ دنیوی معاملات میں مکافاتِ عمل اور حسن سلوک کا مظاہرہ کریں، نہ کہ ان سے دلی محبت اور دوستی کا رشتہ استوار کریں۔ |