ان کے ساتھ رہے خواہ تنگی ہو یا آسانی ، سختی ہو یا نرمی، صرف آسانی اور نرمی کی حالت میں ساتھ دینا اور سختی اور تکلیف کی حالت میں ساتھ چھوڑ دینا تو منافقین کا شیوہ ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ا۟لَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ1ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْۤا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ1ۖ وَ اِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ1ۙ قَالُوْۤا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَ نَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ1. فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ1. وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا﴾ [1] ’’جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں،اگر اللہ کی طرف سے تم کو فتح ملے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کو فتح نصیب ہو تو ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پرغالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانوں (کے ہاتھوں) سے بچایا نہیں۔ تو اللہ تم میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور اللہ کافروں کو مؤمنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دےگا۔‘‘ 7. زیارتوں اور ملاقاتوں کا تسلسل: مسلمانوں کاایک دوسرے کی زیارت کرتے رہنا، ملاقات کی چاہت رکھنا، اورمل جل کر بیٹھنے کا شوق رکھنا بھی باہمی محبت کی دلیل ہے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ((وَجَبَتْ مَحبَّتِي للمُتَزَاوِرِينَ فيَّ، ۔۔... وفي حدیث آخر... أنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَّهُ فِي اللّٰہ فَأَرْصَدَ اللهُ عَلى مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا ، فسألہ أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ أُزُور أَخًا لِّي فِي اللّٰہ قَالَ: هَلْ لَّكَ عَلَيْہ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا عَلَيْہ ؟ قَالَ: لَا غَیرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللهِ قَالَ: فَإِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكَ بأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّكَ كَمَا أَحْبَبْتَهُ فِيهِ.)) [2] ’’محض میری رضا کی خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہے۔ایک اور حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ایک آدمی محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے کسی بھائی کی زیارت کے لیے نکلا،اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتے کو بٹھا دیا جو اس کا انتظار کررہا تھا (جب وہ شخص وہاں پہنچا) تو اس فرشتے نے سوال کیا، کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے |