3. مسلمانوں کی تکلیف پر غمزدہ ہونا اور ان کی خوشی پر خوش ہونا: یہ بھی باہم محبت اور اُلفت کی ایک زبردست نشانی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مثلُ المؤمنين في تَوادِّهم ، وتَرَاحُمِهِم ، وتعاطُفِهِمْ ، مثلُ الجسَدِ إذا اشتكَى منْهُ عضوٌ تدَاعَى لَهُ سائِرُ الجسَدِ بالسَّهَرِ والْحُمَّى)) ’’باہمی اُلفت و محبت اور دوستی و شفقت کے لحاظ سےمسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جس کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم بخارزدہ اور بیدار رہ کر اس تکلیف کا اظہار کرتا ہے۔‘‘[1] ایک دوسرے حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک مومن دوسرے مؤمن کے لیے ایک عمارت کی مانند ہے، جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرکے یہ مثال سمجھائی۔‘‘[2] 4. جذبہ خیر خواہی:مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی، ان کے لیے ہرقسم کی بھلائی چاہنا اور ہر قسم کی دھوکہ دہی اور مکروفریب سے گریز کرنا بھی ان کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیه ما یحب لنفسه)) [3] ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ کرنے لگے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ((المسلِمُ أخُو المسلِمِ ، لا يَظلِمُهُ ولا يَخذُلُهُ ، ولا يَحقِرُهُ ، بِحسْبِ امْرِئٍ من الشَّرِّ أنْ يَحقِرَ أخاهُ المسلِمَ ، كلُّ المسلِمِ على المسلِمِ حرامٌ ، دمُهُ ، ومالُهُ ، وعِرضُهُ)) [4] ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے اور نہ ذلیل کرتا ہے۔کسی آدمی کے بُرا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ |