نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس شخص سے براءت اور ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے جومشرکین کے درمیان مقیم ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان پر کفار کی سرزمین میں رہنا حرام ہے ، اِلا یہ کہ وہ ہجرت کی طاقت نہ رکھتا ہو یا پھر اس کے سرزمین کفرمیں رہنے کی کوئی دینی مصلحت ہو۔مثلاً دعوت الی اللہ یا تبلیغ دین وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ظَالِمِيْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ1. قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ۠ فِي الْاَرْضِ1. قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَا1. فَاُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ1. وَ سَآءَتْ مَصِيْرًاۙ۰۰۹۷اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ حِيْلَةً وَّ لَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًاۙ۰۰۹۸ فَاُولٰٓىِٕكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْهُمْ1. وَ كَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوْرًا﴾[1] ’’جو لوگ اپنے جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں ، کہ تم کس حال میں تھے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کا ملک فراخ نہیں تھا، کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ تو ایسے لوگوں کاٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بُری جگہ ہے۔ ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے بے بس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی راستے جانتے ہیں، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسوں کومعاف کردے، اور اللہ تعالیٰ معاف کرنیوالا اوربخشنے والا ہے۔‘‘ 2. مسلمانوں کے ساتھ حسن تعاون: مسلمانوں کی مدد اور ان کی دینی و دنیاوی ضروریات میں جان و مال اور زبان کے ساتھ معاونت بھی ان سے محبت کی ایک نشانی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ﴾ [2] ’’اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں...‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ﴾[3] ’’اور اگر وہ تم سے دین میں مدد طلب کریں تو تم پر ان کی مدد کرنا واجب ہے، اِلا یہ کہ وہ ایسی قوم کے خلاف مدد طلب کریں جس کا تمہارے ساتھ کوئی معاہدہ ہے۔‘‘ |