کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کفار کی مروّجہ تمام تاریخوں کو ٹھکرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی تاریخ مقرر کردی۔اس سے ثابت ہوا کہ تاریخ کے تقرر اور اس قسم کے دیگر کفار کے خصائص میں ان کی مخالفت کرنا ایک شرعی فریضہ ہے۔ 6. کفار کے تہواروں میں شرکت: کفار کے تہواروں میں شرکت کرنا یا ان کے تہواروں کے انعقاد میں ان کے ساتھ تعاون کرنا یا ان کے تہواروں کی مناسبت سے اُنہیں مبارک بادی پیغامات بھیجنا، یہ سب ان سے دوستی اور محبت کے نشانات ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے: ﴿وَ الَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ﴾ [1] ’’کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔‘‘ جس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ رحمٰن کے نیک بندے کفار کےتہواروں اور ان کی عیدوں میں حاضر نہیں ہوتے۔ کیونکہ اس فرمانِ الٰہی میں الزور (یعنی جھوٹ) پر مبنی ایسی محفلوں میں شریک ہونا بھی شامل ہے جو بدعت پر قائم ہیں، اس قسم کی محفلیں کذب کی بنا پراللہ تعالیٰ کے دین کے مخالف اورمعاند ہیں اور قطعی طور پر دین کے مفاد میں نہیں ۔ 7. کفار کی مدح سرائی اور ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف و تشہیر: یعنی کفار کی مدح سرائی اور ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف و توصیف اور ان کے عقائد باطلہ اور سرکشی وطغیانی سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کےظاہری اخلاق اور دنیوی تجربات سے خوش ہونا ، یہ سب ان کی محبت اور علامات ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا1ۙ۬ لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ1. وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى ﴾ [2] ’’اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہر ہ مند کیا ہے، تاکہ ان کی آزمائش کریں، ان پرنگاہ نہ کرنا اور تمہارے پروردگار کی عطا فرمائی ہوئی روزی بہت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان اپنی قوت اور استحکام کے اسباب ہی چھوڑ کر بیٹھ جائیں بلکہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف صنعتوں کی تعلیم حاصل کریں، |