Maktaba Wahhabi

49 - 79
’’جنہیں اللہ تعالیٰ نے ذلیل و رسوا کردیا ہےمیں اُنہیں عزت و کرامت نہیں دے سکتا اورجنہیں اللہ تعالیٰ نے ہم سے دور کردیا،میں انہیں اپنے سے قریب نہیں کرسکتا۔‘‘ [1] صحیح مسلم میں حدیث ِنبوی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے لیے نکلے تو ایک مشرک آدمی بھی ساتھ ہولیا اور حرہ مقام پر ملاقات کرتے ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ میں شرکت کی خواہش ظاہر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘اس نے کہا نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم واپس لوٹ جاؤ ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیا کرتے۔‘‘ ان دلائل سے پتہ چلا کہ مسلمانوں کے امور سے متعلق کفار کو کسی منصب پر فائز کرنا حرام ہے، کیونکہ وہ اس طرح مسلمانوں کے حالات اور خفیہ بھید بڑی آسانی سے حاصل کرلیں گے اورنتیجتاً ان کی ضرر رسانی کا سامان تیارکرنےکی سازشیں کرنے لگیں گے۔[2] آج کل کفار کو مسلمانوں کی سرزمینوں، حتیٰ کہ حجاز مقدس میں مزدور، کاریگر، ڈرائیور یا خدمت گار کے طور پر لایا جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ ان کے علاقوں میں مخلوط زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ گھروں میں انہیں اتالیق ومربی کی حیثیت سے رکھا جارہا ہے اور وہ مسلمانوں کے خاندانوں کے ساتھ مخلوط زندگی گزار رہے ہیں۔ آج کے دور میں یہ روش حرمت اور انجام کار کی تباہی کے اعتبار سے سابقہ روش سے کوئی مختلف نہیں ہے۔ 5. کفار کے ہاں مروّجہ تاریخ کو اپنانا:یعنی جو تاریخ بلادِکفر میں رائج ہے، اسے اختیار کرلینا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے۔ پھر خاص طور پر ایسی تاریخ جو ان کی کسی مناسبت یا عید کی ترجمانی کررہی ہو، مثلاً عیسوی کیلنڈر وغیرہ۔ عیسوی کیلنڈر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی یادگار کےطور پر ہے، یہ تاریخ عیسائیوں نے خود اختراع کی ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین سے اس تاریخ کا کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس تاریخ کا رواج و استعمال، ان کے اشعار اور عید کو زندہ کرنےمیں ان کے ساتھ شرکت کے مترادف ہے۔ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں صحابہ نے مسلمانوں کے لیے تاریخ مقرر
Flag Counter