کرنے اور مسلمانوں کی بربادی اور ہلاکت کی منصوبہ کرنے کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔اپنی سائنسی مہارات و ایجادات سے کفار کو فائدہ پہنچارہے ہیں بلکہ وسائل حرب و ضرب ایجاد کرکے اُنہیں کفار کے سپرد کردیتے ہیں تاکہ وہ اُنہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں۔ مسلمانوں کی ہلاکت کے سلسلہ میں کفار کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے ہیں بلکہ ان پر حملہ کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض مسلمان بلادِ کفار کی نیشنلٹی حاصل کرکے اپنی پوری زندگی وہاں گزار دیتے ہیں اور یہ پوری زندگی ان کے تمام قوانین کی پیروی کرتے ہوئے بسر کردیتے ہیں ، حتیٰ کہ ہم نے بعض مسلمانوں کو اپنے تجارتی مراکز میں صلیب تک فروخت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون .... اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کیجئے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِيَآءَ1ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ﴾ [1] ’’مسلمانو! ان لوگوں کودوست نہ بناؤ جوتمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواہ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں۔ اگر تم مؤمن ہو تو اللہ تعالیٰ سےڈرتے رہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بعد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے ساتھ محبت اور اس کے دشمنوں کے ساتھ عداوت و نفرت قائم کی جائے۔ چنانچہ عقیدہ اسلامیہ جن قواعد پرقائم ہے، ان میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ یہ ہے کہ اس پاکیزہ عقیدے کو قبول کرنے والاہرمسلمان اس عقیدے کے ماننےوالوں سے دوستی اور نہ ماننےوالوں سے عداوت قائم و بحال رکھے اور یہ شرعی فریضہ ہےکہ ہر صاحب ِتوحید سےمحبت کرے اور اس کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار رکھے، اسی طرح ہر شرک کرنے والے سےبغض رکھے اور اس کے ساتھ عداوت کی راہ پر قائم رہے۔ 1.سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے پیروکاروں کا یہی اُسوہ حسنہ ہمارےلیے بطورِ خاص قرآن حکیم میں بیان کیا گیا ہے اور ہمیں ملت ِابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: |