﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ1ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ1 كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ ﴾[1] ’’تحقیق تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے رفقا میں ایک اچھا نمونہ ہے ، جب اُنہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سےکہا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ تعالیٰ کےسوا پوجا کرتے ہو، ان سب سےبے تعلق اور ناراض ہیں۔ ہم تمہاری اس روش کا انکار کرتے ہیں اور جب تک تم ایک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک پر ایمان نہیں لے آتے ، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور بغض قائم رہے گا۔‘‘ 2. محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بھی یہی تعلیم ہے۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ1ۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ1 وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ1 اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ﴾ [2] ’’اےایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کو ئی تم میں اُنہیں دوست بنائے گا وہ بلا شبہ اُنہی میں سے ہوگا۔بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ 3. یہ آیتِ مبارکہ بطورِ خاص اہل کتاب سے دوستی و تعلق قائم کرنےکی حرمت و ممانعت پر دلیل ہے۔ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر ہر قسم کے کافروں سے دوستی قائم کرنےکو حرام قرار دیا ہے۔مثلاً: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ ﴾ [3] ’’اےایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست مت بناؤ۔‘‘ 4. بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ایسے کفار کی دوستی بھی مسلمانوں پر حرام قرار دے دی ہے، جو خونی رشتے اور نسب کے اعتبار سےانتہائی قریب ہوں۔ فرمایا: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِيْمَانِ1 وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ |