٭ توما کی موت کے متعلق بھی متضاد آرا ہیں ۔ ایک رائے کہ وہ راجہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور دوسری یہ کہ مالا بار کے کالی دیوی کے مندر کے پاس پروہتوں کے اصرار کے باوجود توما نے کالی دیوی کو دیوتا ماننے اور چڑھاوا چڑھانے سے انکار دیاجس کے نتیجہ میں مندر کے پجاریوں نے توما کو مار ڈالا۔ تیسرا دعویٰ یہ ہے کہ توما جنگل میں مور کا شکار کرتے شکاریوں کے تیر سے مرا ۔ ٭ خود مسیحی مؤرخین ہی توما کے مقتول ہونے کی نفی کرتے ہیں : ’’ہیرکلون ایک قدیم مصنف کا قول کلیمنٹ(۲۰۰ئ)نے نقل کیا ہے لکھتا ہے کہ تھامس(توما رسول)شہید ہوا ہی نہیں ۔‘‘ ٭ اس سے قطع نظر توما رسول کے برازیل (لاطینی امریکہ) جانے کا دعویٰ بھی پایا جاتا ہے ۔ ٭ ولیم جی ینگ کے بقول: " یوسی بس (Eusebius)مؤرخ نے قریباً ۳۲۵ء میں لکھا کہ توما رسول کو مسیح نے پارتھیہ بھیجا۔ ہو سکتا ہے کہ یوسی بس نے اورغین سے اقتباس لیا ہو،اور یہ شہادت قریباً ۲۲۵ء کی ہو۔‘‘ چونکہ ہندوستانی کلیسا کی بنیاد توما رسول پر رکھی جاتی ہے، اس لیے ان کی آمدِہند کی روایت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ناکافی تاریخی معلومات اور شواہد کی بنا پر توما کو ہندوستانی کلیسا کا بانی ثابت کرنا مشکل امر ہے۔ چنانچہ اسٹیفن نیل اس ’بھاری پتھر‘کو یہ کہہ کر رکھ دیتا ہے کہ "There is really no evidence in favour of the foundation of Indian Christianity by Thomas expect the persistent strength of the tradition .unless further archaeological evidence confirms the tradition , the critical historian must leave the matter with the simple We Do Not Know" اس سب کے برعکس دوسری صدی عیسوی میں توما نامی ایک شخص کامبہم تذکرہ ملتا ہے جو اس وقت مروّجہ غالب مسیحی عقائد کی بجائے ’بدعتی عقائد‘کا حامل تھا اور اس نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ سترھویں صدی کے معروف مستشرق ڈاکٹر برنل کے مطابق یہی وہ توما تھا جو سب سے پہلے ہندوستان میں مسیحی عقائد لے کر آیاتھا ، نہ کہ پہلی صدی کا توما رسول: |