نقد و نظر محمد عطاء اللہ صدیقی کیا دینی مدارس کو بند کردیا جائے؟ لاہور میں قادیانیوں کے خلاف دہشت گردی کے تازہ واقعات کے بعد، گذشتہ چند ہفتوں سے ہمارے سیکولر کالم نگار اور لبرل دانشور تواتر سے دینی مدارس کو جارحانہ تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں ۔ بالخصوص انگریزی اخبارات میں اس طرح کے کالم اور مضامین تسلسل سے شائع ہو رہے ہیں ۔یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مضامین ’رینڈ کارپوریشن‘ جیسے امریکی تھنک ٹینکس کی کسی تازہ رپورٹ اور سفارشات کی تائید میں لکھے جارہے ہیں یا دہشت گردی کی حالیہ گھناؤنی وارداتوں کا ردّ عمل ہیں ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کی واضح مذمت سے گریز کی پالیسی جس طرح غلط ہے، اسی طرح کسی بھی ایک طبقہ کو بلا وجہ اور بغیر کسی ثبوت کے تنقید کانشانہ بنانا اوراُس کے وجود کو مٹانے کی تجاویز پیش کرنا بھی حد درجہ نامناسب بات ہے۔جدیداُصولِ قانون کی رو سے کہا جاتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ سو مجرموں کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا جائے۔ ہمارے روشن خیال دانشور اس اُصول کو جدید ریاستوں کے عدل و انصاف کے ضابطوں میں ایک روشن مثال بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ مگر یہی دانشور جب مذہبی طبقات اور دینی مدارس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں توعدل وانصاف کے ان روشن اُصولوں کویکسر فراموش کردیتے ہیں ۔ اس ساری صورتِ حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں دینی مدارس پرجو تنقید کی جارہی ہے، وہ بالکل یکطرفہ ہے اور اس اعتبار سے غیر منصفانہ ہے۔ انگریزی اخبارات میں توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر اُردو اخبارات میں بھی دینی مدارس کے ذمہ داران کا موقف شائع نہیں کیا جاتا،نہ ہی ہمارے وہ کالم نگار جو دینی مدارس کے بارے میں صحیح معلومات رکھتے ہیں ، اپنے کالموں میں اس کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہیں ۔ جناب شفقت محمود، ایک روشن خیال اور ترقی پسند دانشور ہیں ۔ بیوروکریسی کو چھوڑ کر |