حدیث وسنت حافظ زبیر علی زئی ڈاکٹرطاہر القادری اور موضوع روایات کی ترویج ٭ یہ بات بالکل سچ اور حق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا تکذبوا عليّ فإنہ من کذَب عليّ فلیلِج النار)) ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو،کیونکہ بیشک جس نے مجھ پر جھوٹ بولا تو وہ (جہنم کی) آگ میں داخل ہو گا۔ ‘‘( صحیح بخاری ، کتاب العلم، باب إثم من کذب علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم ح ۱۰۶، صحیح مسلم : ۱) ٭ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من حدّث عني بحدیث یرٰی أنہ کذب فھو أحد الکاذبین )) ’’جس نے مجھ سے ایسی حدیث بیان کی جس کا جھوٹ ہونا معلوم ہو ، تو وہ شخص جھوٹوں میں سے ایک ( یعنی جھوٹا) ہے۔ ‘‘ ( صحیح مسلم قبل ح ۱، ترقیم دارالسلام : ۱) ٭ ان احادیث اور دیگر دلائل کو مدنظر رکھ کر علماے کرام نے فرمایا کہ موضوع (یعنی جھوٹی، من گھڑت )روایت کا بیان کرنا حلال نہیں ہے۔ حافظ ابن الصلاح نے فرمایا : ’’اعلم أن الحدیث الموضوع شر الأحادیث الضعیفۃ ولا تحل روایتہ لأحد عَلِم حالہ في أي معنی کان إلا مقرونًا بِبَیان وضعہ ‘‘ ( مقدمہ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح ص ۱۳۰، ۱۳۱، دوسرا نسخہ ص ۲۰۱) ’’جان لو کہ بے شک موضوع حدیث ضعیف اَحادیث میں سب سے بری ہوتی ہے اور حال معلوم ہونے کے بعد کسی شخص کے لئے اس کی روایت حلال نہیں ہے، چاہے جس معنی میں (بھی ) ہو ، سوائے اس کے کہ اُس کے موضوع ہونے کا ذکر ساتھ بیان کر دیا جائے۔‘‘ مگر افسوس ہے اُن لوگوں پر جو اَحادیث نبویہ اور آثارِ صحیحہ کے باوجود جھوٹی اور بے اصل روایتیں مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور آخرت کی پکڑ سے ذرّہ بھر بھی نہیں ڈرتے۔ ٭ ایک طویل حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا: ایک شخص کی باچھیں چیری جا رہی ہیں ۔ ( دیکھئے صحیح بخاری : ۱۳۸۶) یہ عذاب اس لئے ہو رہا تھا کہ وہ شخص |