’’جب ہم ٹامس رمبان کے مجموعہ کو پڑھتے ہیں تو اس میں ہم چند ایک باتیں دیکھتے ہیں جن کی وجہ سے تمام مجموعہ تاریخی نکتہ نگاہ سے مشکوک ہو جاتا ہے۔مثلا’توما کے اعمال‘کی اندر اپولس کی حکایت کو لے کر کہا گیا ہے کہ یہ کرنگا نور میں واقع ہوئیں ۔ ٹیکسلا میں محل بنانے کی حکایت لے کر کہا گیا کہ یہ باتیں مائلاپور میں واقع ہوئیں ، حالانکہ دونوں مقامات میں قریبا ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ ہے۔علیٰ ہذا القیاس جنوبی ہند کے تمام گیت اور مجموعے ’توما کے اعمال‘کی تمام حکایت کو شمال مغربی ہندوستان سے ألف لیلۃ کے چراغ کی مدد سے جنوبی ہندوستان لا منتقل کر دیتے ہیں ۔‘‘ ٭ جنوبی ہند میں توما کی آمد کے تعین میں خاصا اختلاف ہے۔اس کی آمد دسمبر۵۰ء ، ۵۲ء ، ۶۵ء یا ۷۲ء بتائی جاتی ہے۔ ٭ اس روایت میں جنوبی ہندمیں لوگوں کے معروف مستعمل ناموں میں سے ایک بھی نام نہیں ملتا۔ ملکہ کا نام لاطینی (طری پطیہ)،ملکہ کی خادمہ(سن ٹیکسس)، بادشاہ کے رشتہ دار (کارٹیس، سمفورس ،مگدونیہ)یونانی اور باقی تمام ایرانی اور سامی ہیں ۔ممکن ہے مصنف کا خیال ہو کہ چونکہ شاہ گونڈافاس کی ریاست میں ایرانی، سامی یونانی لوگ بستے تھے لہٰذا تمام ہندوستان میں اِنہی ناموں کے لوگ رہتے ہوں گے، لیکن یہ اسما ضعف ِروایت پر دلالت کرتے ہیں ۔نیزتادمِ تحریر تاریخ اور آ ثارِ قدیمہ ہر دو میں بادشاہ ’مزدئے‘ مجہول الاسم ہے ۔ ٭ یہ روایت ایک اور پہلو سے بھی مشکوک ہے کہ بادشاہ مزدئے اپنے بیٹے کی شفا کی خاطر مبارک ہڈیاں لینے گیا تو اُنہیں قبر میں نہ پایا ۔ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آیا عہد ِمذکور میں ہندوستان میں قبور سے ہڈیاں لینے کا رواج بھی تھا، کیونکہ ہندو مذہب میں تو مردوں کو جلانے کا رواج تھا۔ ایک ہندو راجہ کیسے ہڈیوں کو لینے آن پہنچا جب ان کے ہاں ہڈیوں سے شفا کا تصور ہی نہ تھااور دوسری طرف مسیحی عموماً مردوں کی ہڈیوں سے برکت یاشفا حاصل کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مقام سے سالہا سال بعد مقدس ہڈیاں اڑیسہ منتقل کی گئیں تھیں ۔ |