Maktaba Wahhabi

74 - 79
سرکاپ کے کھنڈرات میں ایک کسان کو ہل چلاتے ہوئے ایک صلیب نظر آئی جسے مارشل نامی انگریز نے لے لیا۔ اس صلیب سے فرض کر لیا گیا کہ یہ پہلی صدی کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اس علاقے میں مسیحی کلیسا پہلی صدی سے رائج ہے۔ یہ صلیب اس وقت ٹیکسلا کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ اس صلیب کا جدید سائنسی آلات کی روشنی میں میٹرولوجی تجزیہ کیا جاسکتا ہے جس سے اس کی قدامت کا تعین ہو سکتا ہے کہ کیا واقعی یہ پہلی صدی کی صلیب ہے۔نیز یہ بھی اَمر مسلمہ ہے کہ صلیب کی علامت قبل مسیح کئی مذاہب کا شعار تھی۔نجانے یہ کس مذہب کی باقیات سے متعلق ہو۔ ٭ تاجرہین عام بحر ی راستے سے ہٹ کر ایک معمار کی تلاش میں یروشلم کیسے جا پہنچا۔ کیا اس دور میں شمالی ہندوستان اور یروشلم کے درمیان کوئی تجارتی رابطے تھے بھی یا نہیں ؟ پھراس سے بھی اہم بات کہ اتنی دور جا کر ہین کسی معمار کی بجائے ایک ایسے شخص کو کیونکر خرید لیتا ہے جو اپنے آپ کو بڑھئی ظاہر کرتا ہے اور کاشتکاری کے لیے ہل جوئے نیز کشتیاں اور اس کے پتوار بنانے کا ماہر بتاتا ہے۔جب کہ مستند مسیحی تاریخی ماخذ اسے ایک بڑھئی کی بجائے مچھیرا ظاہر کرتے ہیں جو جال بنانے اور مچھلیاں پکڑنے کا ماہر ہے۔ ٭ گونڈوفاس کی مجہول شخصیت کے حوالے سے بھی بعض سوالات سامنے آتے ہیں ۔ بعض کے نزدیک وہ مسیحی مذہب کا علم بردار ہو گیا تھا اور اس نے اپنی مملکت میں مسیحی مذہب عام کر دیا تھا اور جبکہ دوسری رائے کے مطابق وہ مسیحی نہیں بنا، لیکن مسیحیت کو رواداری عزت اور ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا تھا، نیزاس کے مسیحی ہونے کے بھی سال وایام متضاد بتائے جاتے ہیں ایک میں اگر۴۸ء ہے تو دوسری میں ۶۱ئ۔ ٭ ٹیکسلا سے مسیحی روایت کا رخ جنوبی ہند میں مالا بار اور کورو منڈل کے ساحلی علاقوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ توما کے ذکر پرمشتمل مقامی دہقانی گیتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ توما حواری نے اُنہیں مسیحی بنایا ۔توما کے ذکر پر مبنی مالم زبان میں ساڑھے چار سو اشعار پر مشتمل ٹامس رمبان نامی مجموعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پادری برکت اللہ لکھتے ہیں :
Flag Counter