Maktaba Wahhabi

73 - 79
مقدس توما حواری کی ہڈیاں یہاں لا کر اس کا عرس منایا جائے۔ چنانچہ کلیسا کے چند شرکا میں مائلاپور پہنچے اور رات کی خاموشی میں مزار کھود کریہاں سے باقیات اپنے ساتھ اڑیسہ لے گئے۔یہ ہڈیاں اگست کو اڑیسہ پہنچیں اور وہاں دفنا دی گئیں ۔ جہاں سے اٹلی کے شہر اورٹونا کے کیتھڈرل میں منتقل کر دی گئیں ۔ یہاں لاش اور ہڈیوں کی کہانی سے قطع نظر، تاریخ کا ایک اہم پیغام پنہاں ہے کہ جو شکست خوردہ قوم تنزل کا شکار ہوتی ہے تو مایوسی کے عالم میں وہ اسلاف کی پرستش و تعظیم میں لگ جاتی ہے یا پھران کی استخوان فروشی میں ۔ یہ روایت خام خیال فرضی قصہ پر مبنی ہے یا اس میں کوئی حقیقت بھی ہے ؟ اس سے قطع نظر اگر واقعتا تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ حواری توما پہلی صدی میں ہندوستان آئے تھے تو یہ اہل ہند کی خوش بختی ہو گی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف نازل شدہ پیغامِ الٰہی اصلی اور غیرمحرفہ شکل میں ’عالی سند‘کے ساتھ یہاں پہنچ گیا، لیکن اس کا انحصار مذکورہ روایت کے صحیح ثابت ہونے پر ہے ،نہ کہ عقیدت اور احساسِ تفاخر کے جوش میں اس قصہ کو حقیقت قرار دیتے ہوئے اسے بنیاد بنا کراس پر خوش خیالی اور شاندار منظر کشی سے کلیسائے ہند کی عالی شان عمارت تعمیر کرنے پر ۔ مذکورہ بالا روایت مذکور چند دیگر اُمور کا تحلیلی جائزہ لینے سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں : ٭ گونڈوفاس بادشاہ اُنیسویں صدی تک گمنام رہا۔۱۸۷۵ء میں پشاور سے ۲۸ کلو میٹر دور تخت بائی کی پہاڑی پر چھ سطروں پر مشتمل ۱۴۱۷ء کا کتبہ ملا جس میں بادشاہ گونڈوفاس لکھا پایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ تاریخ جو ایک عہد کی جزئیات تک محفوظ کر لیتی ہے، اس کتبہ سے قبل مذکوربادشاہ، اس کے خاندان اور اس کے عہد میں ٹیکسلا کے تذکرہ سے یکسر بے نیازی دکھا رہی ہے اور ہم صرف ’توما کے اعمال‘ نامی ایک فرضی اور تخیلاتی کردار کی حامل داستان سے اس بادشاہ کے کردار کو لے کر اس پر تاریخ کی بنیاد رکھ رہے ہیں ۔ ٭ قدیم ٹیکسلا میں مسیحیت سے متعلقہ کوئی تاریخی یا ثقافتی آثار نہیں ملتے۔مذہبی حوالے سے بھی ۱۹۳۵ء تک یہاں کی وادیاں کوئی شواہد پیش نہیں کرتیں تاآنکہ ٹیکسلا کے قریب
Flag Counter