Maktaba Wahhabi

72 - 79
فروخت کنندہ : یسوع پسریوسف نجار سکنہ ناصرت ملک فلسطینی توماکوخریدکر ہین اسکندریہ کے بحری راستے سے ہندوستان روانہ ہوا اور غالباً بھادوں (بکرمی جیت، تقویمی ماہ)میں اَٹک پہنچ کر وہاں سے چالیس میل جنوب مشرق میں ٹیکسلا راجہ گونڈوفاس کے پاس پہنچ گیا۔راجہ مذکور نے توما کو ایک عالی شان محل تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی اور اس کے لیے رقم بھی توما کے حوالے کر دی، اس نے وہ رقم غربا میں تقسیم کر دی۔ راجہ نے اس پر غضب ناک ہو کر اسے قید کر دیا تاکہ اسے آگ میں زندہ جلا دیا جائے۔ اتفاقاً اسی رات راجہ کا بھائی فوت ہو گیا اور مرنے کے بعد اس نے ایک عالی شان محل دیکھا جو توما نے اس کے بھائی کے لیے تعمیر کیا تھا(غربا میں دولت تقسیم کرنے کے بدلے میں یہ محل بنایا گیاتھا) اس میت نے دوبارہ زندہ ہو کر راجہ کو تمام قصہ سنایا تو راجہ اور اس کی تمام رعایا نے عیسائیت قبول کر لی۔ یہ واقعہ۴۸ء میں پیش آنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔بعد اَزاں جنوبی ہندسے توما کے پاس سفور نامی ایک قاصدکی آمد کا تذکرہ ہے جسے مائلاپور کے مزدے راجہ نے بھیجا تھا۔ توما اس کے ساتھ ہو لیااور جا کر راجہ کی بیوی اور اس کی بیٹی سے بدروحوں کو نکالا۔اس پرمزدے کے شاہی خاندان نے مسیحیت قبول کر لی۔ راجہ اس کی شہرت اور مقبولیت سے خائف ہو گیا اور اس نے سازش کے ذریعے شہر سے دور ایک پہاڑی پر لے جا کر اسے قتل کرنے کا کہا۔ راجہ کے سپاہیوں نے اسے پہاڑی پر لے جا کر بھالوں سے قتل کر دیا ۔مدراس کے اس مقام پر دوسری یا تیسری صدی کے آغاز میں ’ویر توما‘یعنی توما کی خانقاہ بنا دی گئی ۔ دوسری اور تیسری صدی میں مختلف مقامات کے کلیساؤں میں مسیحی مشاہیر کے مزاروں پر جانا ایک عام بات تھی۔جن میں کچھ مقدسین کے مزار زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔جیسے انطاکیہ شہر میں بشپ اگنیش نس(۱۲۰ئ)کی ہڈیاں لا کر دفنا دی گئیں تھیں اور وہاں اس کا’روزِ ولادت‘ منایا جاتا، اسی طرح سمرنا کے کلیسا کے مقتول بشپ پولی کارپ کی ہڈیاں سمرنا میں دفن تھیں جہاں اس کا عرس منایا جاتا۔ اڑیسہ کے کلیسا کے ارد گرد ان مزاروں کی موجودگی میں اس کے نمائندے مائلاپور میں توما کے عرس میں شریک ہوتے۔اڑیسہ کے کلیسا کی یہ بڑی خواہش تھی کہ
Flag Counter