ان کے بارے میں مکہ اور مدینہ جانے کا ذکر بھی ملتا ہے ۔[1] اساتذہ و شیوخ ابو عبید رحمہ اللہ نے نحو، لغت، قراء ت اور حدیث کی تکمیل جن ائمہ فن اور اکابر فضلا سے کی تھی، ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں : ابن عربی، رحمہ اللہ ابوبکر رحمہ اللہ بن عیاش، ابوزکریا کلابی رحمہ اللہ ، ابو زید انصاری رحمہ اللہ ، ابو عمرو شیبانی رحمہ اللہ ، اسماعیل بن جعفر رحمہ اللہ ، اصمعی رحمہ اللہ ، جریر بن عبدالحمید رحمہ اللہ ، سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ ، شجاع بن نصر رحمہ اللہ ، صفوان بن عیسیٰ رحمہ اللہ ، عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ، یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ ، یحییٰ بن صالح اور یزید بن ہارون رحمہ اللہ وغیرہ ۔ اس زمانہ میں کوفہ اور بصریٰ نحو و لغت کے مرکز تھے۔ ابو عبید رحمہ اللہ کو دونوں مراکز کے ائمہ فن سے کسب فیض کا موقع ملا۔[2] تلامذہ ابو عبیدالقاسم رحمہ اللہ جیسے فاضل اور یکتاے زمانہ سے متعدد طلبا نے استفادہ کیا۔ مؤرخین نے ان کے کچھ شاگردوں کے نام بیان کیے ہیں : ابوبکر بن ابی الدنیا، احمد بن یحییٰ بلاذری، احمد بن یوسف تغلبی، حسن بن مکرم، عباس دوری، عباس عنبری عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، علی بن عبدالعزیز بغوی، محمد بن اسحق صاغانی، محمد بن یحییٰ مروزی اور نصر بن داؤد۔ [3] روایات حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کی روایتیں کتب ِحدیث میں میری نظر سے نہیں گزریں ، البتہ ان کے اَقوال اکثر کتابوں میں نقل کئے گئے ہیں ۔ [4] امام بخاری رحمہ اللہ نے ’کتاب الادب‘ اور بعض دوسرے اَبواب و کتب میں ، امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے کتاب الزکوٰۃ میں اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے قراء ت و نحو کے متعدد اَبواب میں ان کے اقوال نقل کئے |