بھی تشکیل پذیرہے جس میں ہردو فریق کے اہداف ومقاصد زیادہ سے زیادہ دنیوی منفعت کے حصول تک محدود ہیں ، البتہ اس ضمن میں ان کی ترجیحات اور لائحہ عمل کے اختلاف کے ساتھ علاقائی اور تاریخی مناسبتوں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ روس کے ٹوٹ جانے کے بعد کے اشتراکی ایک اور پس منظر میں بھی اپنی جدوجہد کو منظم کررہے ہیں ، اور اس مقصد کے لئے اشتراکیت نے کسی قوم کی داخلی مساوات کے اشتراکی نظریہ کی بجائے اقوام عالم کی مساوات کے دعویٰ کو پروان چڑھانا شروع کیا ہے۔ تھرڈ ورلڈ ازم اسی پس منظر میں متعارف کرائی گئی ایک اصطلاح ہے، جس کا مقصد مزعومہ تیسری دنیا کے ممالک کو بھی فرسٹ ورلڈ (امریکہ) اورسیکنڈ ورلڈ(یورپ و ترقی یافتہ ممالک) کے ساتھ دنیوی مفادات میں مساوات پر مبنی حصہ دلانے کی کوشش ہے۔ زیر نظر مضمون ماضی کے اسی اشتراکی اور سرمایہ دارانہ مخاصمت کے نئے رخ اور مجوزہ اَہداف وترجیحات کی نشاندہی پر مشتمل ہے۔ظاہر ہے کہ ہر دو عناصر لادینی نظریات کے حامل اور وطن و قوم پرستی کے نظریے کے علم بردار ہیں ، اور مزاحمت کرنیوالے بھی اسی نظریۂ قوم پرستی کی تائید سے نئی جدوجہد بپا کرنا چاہتے ہیں ، تو ایسی صورتحال میں اس مخاصمت سے اسلام اور اہل اسلام کے نظریاتی اہداف کیونکر حاصل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس مضمون میں اسی خطرہ کی طرف نشاندہی کی گئی ہے کہ مسلم احیا کی تحریکوں کو قوم پرستی پر مشتمل تھرڈ ورلڈ ازم کے خاتمے کی اس دعوت کے حدود اربعہ سے باخبر رہ کر اس سے تعامل کرنا چاہئے۔ اسلام اور سیکولرزم کی اس حالیہ کشمکش میں اسلام کا کردار تاحال اِنفعالی ومفعولی نوعیت کا ہے۔اسلام کی فکری و نظریاتی اور اہل اسلام کی عددی، مالی، تاریخی، جغرافیائی اور ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر مغرب کا قائد امریکہ بیداری سے قبل ہی اُمت ِمسلمہ کی قوت کو منتشر کردینے کے درپے ہے۔ لیکن اہل اسلام ابھی تک غافل پڑے سوتے ہیں اور اُمت کی سیاسی قیادت میں کسی نوعیت کی بیداری یا فکرمندی کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ اُمت ِمسلمہ میں کس طرح اتحاد واتفاق پیدا کیا جائے، عالمی مسائل میں ان کا موقف کیونکر ایک ہو، ان کے مابین تجارت ومعیشت اور تعلیم و ابلاغ کا براہِ راست قومی ارتباط کیونکر وجود میں آئے؟ یورپ تو چند چھوٹی اور مختلف نظریاتی پس منظر رکھنے والی اَقوام پر مشتمل ہونے کے باوجود امریکہ کے بالمقابل |