سجا رکھا ہے۔ اشتہارات میں ویلنٹائن ڈے کے تحائف دینے دلانے کے مناظر دکھائے جارہے ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل نے اپنے آنے والے پروگرام کا عنوان ہی ’۱۴/فروری کے پھول‘ رکھ دیا ہے۔ ہر ٹی وی چینل ۱۴/فروری کو پیش کیے جانے والے پروگراموں کی تفصیلات پیش کر رہا ہے۔ اشتہارات میں ویلنٹائن ڈے کی نسبت سے سرخ رنگ کو نمایاں طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ موبائل فون کمپنیوں نے اس ملک کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ویلنٹائن ڈے قریب آتے ہی ان کی طرف سے مختلف پیکجز کے ذریعے نوجوانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ اپنے ’ویلنٹائن‘ کو محبت کے پیغامات دینے میں کس طرح ان کی خدمات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ پھول بیچنے والوں نے سٹاک جمع کر لیے ہیں تاکہ ۱۴/فروری کو چاندی بنا سکیں ۔ ہر بڑے سٹور پر ویلنٹائن کارڈ اور اس کے متعلقہ تحائف کے سٹال نظرآتے ہیں ۔ پاکستان کی بیٹیاں بڑی بے باکی سے یہ کارڈ اور تحائف خریدتی نظر آتی ہیں ، ان کے چہروں پر کسی پشیمانی، تاسف یا گناہ کے اثرات نظر نہیں آتے۔ ایک وقت تھا کہ ’بوائے فرینڈ‘ کا لفظ ہی اس قدر ناپسندیدہ تھا کہ کوئی لڑکی معاشرے کے خوف سے اِسے زبان پر نہیں لاسکتی تھی آج قوم کی ہزاروں بیٹیاں ویلنٹائن کے تحائف خریدنے اور اخبارات میں محبت اور بے ہودہ عشق بازی کے پیغامات شائع کرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ ہمارے معاشرے کا یہ بڑھتا ہوا اخلاقی زوال ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جو لوگ ویلنٹائن ڈے کو محض ’محبت کا تہوار‘ بناکر پیش کرتے ہیں اور اسے منانے میں کوئی اخلاقی قباحت محسوس نہیں کرتے، وہ حقائق سے چشم پوشی کررہے ہیں ۔ یا تو اُنھیں اس یوم کے حوالے سے یورپ کی تاریخ کا علم نہیں ہے یا پھر وہ محبت کے جنوں میں کسی سچائی کو جان لینے کی خواہش نہیں رکھتے۔ حیرت تو یہ ہے کہ بعض لاعلم خواتین و حضرات ویلنٹائن ڈے پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو محبت کے پیغامات بھجواتے ہیں اور اِسے اپنے خیال میں ایک نیک اور اچھا عمل سمجھتے ہیں ۔درحقیقت ہمارے ہاں اباحیت پسندوں نے’محبت‘ کے لفظ کا بے حد استحصال کیا ہے۔وہ برملا ’شہوت‘ اور ’فسق‘ کی تبلیغ کی جراء ت تو نہیں کرسکتے،اِسی لیے شہوت رانی کے لیے’محبت‘ اور فسق کے لیے ’عشق‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ |