تعلیم وتعلّم ڈاکٹر محمود احمدغازی اسلام کا تصورِ تعلیم فرد کی تعلیم و تربیت کا مقصد فرد کی تربیت کی جب بھی بات ہوئی ہے تو ایک سوال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ فرد کی تربیت کا مقصود اصلی کیا ہے؟ مسلمان کی نظر میں تو مقصود اصلی کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اس لیے کہ جہاں یہ ایمان ہوکہ یہ زندگی عارضی ہے اور بالآخر ایک نئی زندگی آنی ہے جہاں کامیابی اور ناکامی کے نتائج سامنے آئیں گے وہاں منزل مقصود کاسوال متعین ہے اور واضح ہے۔ لیکن جن اقوام میں آخرت کاکوئی تصور نہیں ہے۔ ان کے ہاں یہ سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ فرد کی تربیت کا محرک کیا ہو؟ یونانیوں نے اس کے لیے جو اصطلاح استعمال کی اس کا انگریزی ترجمہ happiness یعنی ’خوشی‘ ہے۔ مجھے نہیں پتا، اس لیے کہ میں یونانی نہیں جانتا، کہ اصل یونانی لفظ کیا ہے اور اس کا حقیقی ترجمہ کیا ہے؟لیکن حکیم ارسطاطالیس اور دوسرے یونانی مفکرین نے happiness یعنی ’خوشی‘ اور مسرت کو انسانی زندگی کا منزلِ مقصود قراردیا۔ ان کے خیال میں ہر انسان خوشی اور مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن خود مسرت کیا ہے؟ اس پر جب یونانیوں نے غور کیا تو ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ جب انسان کو لذت حاصل ہوتی ہے تبھی اس کو مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لذیذ کھانے کھاتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ اچھا لباس پہنتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسری بہت سی لذتیں، جسمانی و مادی لذتیں، ایسی ہیں کہ جب وہ حاصل ہوتی ہیں تو انسان خوش ہوتا ہے۔ لہٰذا لذت اورمسرت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزم قرار پاگئے۔ اگر لذت ہی کو انسان کا ہدف قرار دے دیا جائے تو اس سے جو اخلاقی قباحتیں اور تباہیاں |