حاکمیت اور اللہ کی حاکمیت کے مابین ایک حد فاصل اور اپنے تئیں مفاہمت کرا دی گئی اور اس کے بعد سے مغری فکر و نظریہ کی بنا پر قائم ہونے والی تمام دنیا اسی نظریے کی عملی تطبیق بن گئی۔ یہ نظریہ مغرب کا اساسی اور مستحکم ترین نظریہ ہے جس کی داخلی ضرورت یہ ہے کہ اس طرح حکمران طبقہ کی حاکمیت بھی برقرار رہتی ہے اور مذہب کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کر کے اللہ کی حاکمیت کو محدود کرنے کا موقع بھی اُنہیں مل جاتا ہے۔ دنیا بھر حتیٰ کہ مسلم دنیا میں بھی مذہب کی بنا پر مسلم معاشرت کو جاری و ساری کیوں نہیں کیا جاتا، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس سے انسانوں کی حاکمیت پر قدغنیں لگ جاتی ہیں اور اُنہیں بھی اللہ کے احکامات کے تابع ہونا پڑتا ہے کیوں کہ یہ اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقہ اپنی من مانی اور حکومت کے تحفظ کے لئے کسی بھی مسلم معاشرے میں اسلامی اساسات کو استحکام دینے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ اگر سعودی معاشرہ میں آج کے برعکس ایک مثال موجود ہے تو اس کا ایک طویل تاریخی پس منظر اور ان پر یہ اللہ کی خاص رحمت ہے جبکہ سعودی حکمران معاشرے میں شریعت کی عملداری اور علماء کی قدر و منزلت سے خائف رہتے اور اس بنا پر عوامی عتاب کا نشانہ بھی بنے رہتے ہیں کیونکہ اسلامی معاشرے کا محور ایک انسان (حکمران / بادشاہ) یا متعدد انسانوں (جمہوریت) کی حاکمیت کی بجائے فقط ایک اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی ہے جس کا حکمران (خلیفہ) بھی پابند ہوتا ہے۔ الغرض سیکولرازم مغربی تہذیب کا سب سے خطرناک وار ہے جس میں حد بندی کے نام پر زندگی کے وسیع تر دائرے کو مذہب کی حاکمیت سے نکال کر ریاست کے نام پر انسانوں کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم بھی اسی ریاستی جبر و اسبداد کا شکار ہیں اور ان کے فضلا اسی ریاست کے طے کردہ ڈھانچوں کے رہین و اسیر ہیں۔ دنیا آج سیکولرزم کے نظریے کے سحر میں ڈوبی ہوئی ہے، اور اس کو ایک بڑا متوازن و مہذب اور رواداری و مفاہمت پر مبنی توازن قرار دیتی ہے۔ اگر تو دنیوی سہولت اور عیش پرستی مطمح نظر ہوں تو ممکن ہے کہ سیکولرزم دنیوی مسائل میں کمی کر سکے، البتہ اگر دنیا میں آمد کا مقصد اللہ کی بندگی اور آخرت کی تیاری ہو، تب سیکولرزم دنیوی تعیش سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یوں بھی دنیا کے لاکھ دعوے کے باوجود آج بھی انسایت مذہب کی بنا پر ہی عالمی طور پر منقسم اور باہم نبرد آزما ہے۔ الکفر ملة واحدة آج بھی دنیا کی ایک مسلمہ حقیقت بن کر اُمتِ مسلمہ اور اس کے وسائل کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں۔ ان حالات میں اس بودے دعوے کی کیا گنجائش رہ |