کاوشوں کا کل ارتکاز ان علوم کی مزید تعلیم تک ہی منحصر ہے اور دیگر مغربی علوم کے بالمقابل عملی میدان میں اُنہیں کھپانے کی کوئی گنجائش میسر نہیں ہوتی۔ قانون و معیشت کی جدید تعلیم حاصل کرنے والے فضلا تو نہ صرف عملی زنگی میں اس علمی صلاحیت کی بنا پر متعدد مصروفیات اختیار کر سکتے ہیں بلکہ مزید تعلیم کے لئے تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہو جاتے ہیں، اس کے بالمقابل مدارس کو تو ایک طرف چھوڑئیے، یونیورسٹی یا کسی سرکاری کالج کا علوم اسلامیہ کا سند یافتہ علوم اسلامیہ کے ہر پہلو پر حاصل کردہ اپنے علم کا مصروف اس سے زیادہ نہیں پاتا کہ وہ ان کی آگے مزید تدریس کر سکے۔ کسی علم کو تدریس تک ہی محدود کر دینا اور معاشرتی عمل میں استعمال میں نہ لانا اس رویہ کا غماز ہے کہ اربابِ اختیار کے پیش نظر محض اس کا تحفظ و وجود ہی مطلوب ہے، نہ کہ اس کی بنا پر اپنی اجتماعی و انفرادی زندگیوں کی تشکیل کرنا؛ یہی وجہ ہے کہ اس حد تک علوم اسلامیہ غیر مسلم ممالک کے تعلیمی اداروں میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ اسلام کو عملی و معاشرتی تشکیل سے نکال کر محض تعلیم و تعلّم تک محدود کر دینا انتہائی ظالمانہ رویہ ہے!! آج دین و دنیا کی جس تفریق کا رونا رویا جاتا ہے اور اس کی وجہ دو نام ہائے تعلیم کو قرار دے کر، اُنہیں باہم متصادم باور کیا جاتا ہے، در حقیقت اس کی وجہ ان نظام ہائے تعلیم سے کہیں زیادہ ان ریاستی اقدامات میں پوشیدہ ہے جو طبقہ اختیار نے سیکولر تصورات کی بنا پر بزورِ جبر لاگو کر رکھے ہیں۔ دین و دنیا کے یہ دو واضح دائرے نہ تو ہمارے علمی اداروں کا فیض ہیں اور نہ ہی ہمارے دین کی عطا بلکہ ہمارا دین تو اسلام کی بنا پر زندگی کے ہر مرحلے کو تشکیل دینے کا پرزور داعی ہے جس کے نتیجے میں کسی مسلمان کا دین کی روشنی میں دُنیوی زندگی کی اصلاح کے لئے اُٹھایا جانے والا ہر قدم بھی آخر کار دین ہی ٹھہرتا ہے۔ اس بنا پر ہمارے سنجیدہ فکر حضرات کو ظاہری علامتوں کی بجائے نام نہاد مسلم معاشروں کی عمرانی ساخت اور اس کو قائم کرنے کے لئے حکومتی اقدامات پر توبہ دینے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں ترمیم یا معاشرہ کی اسلامی تشکیل: اس سلسلے میں محض دینی مدارس میں سماجیات کی تعلیم ہی مسئلہ کا حل نہیں جیسا کہ بعض اہل دانش کا خیال ہے بلکہ موجودہ منظم و منضبط معاشرہ کی اسلامی تشکیل اور اس کو اسلامی تقاضوں کے مطابق اُستوار کرنا ہو گا۔ کیونکہ دینی مدارس کے طلبہ کو جدید و سماجی علوم کی تربیت دے بھی دی |