جملہ دینی تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے۔ تفصیل اس اجمال کی حسب ذیل ہے: تعلیم اور معاشرہ کا باہمی تعلق: واضح رہنا چاہئے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے یا نظامِ تعلیم کے لئے محض ایک مثالی نظامِ تعلیم و تربیت دے دینا ہی کافی نہیں اور کسی ادارے میں تعلیم و تربیت کے مثالی ہو جانے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ایسے لوگ مستقبل میں اپنے تحصیل علم کے اہداف و مقاصد پورے کر پائیں گے بلکہ فی زمانہ بعد از فراغت، معاشرے میں ان کے لئے مجوزہ کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ بہت سے تعلیمی ادارے محض اس وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتے کہ ان کے بیش قیمت فضلا کی خدمات کی معاشرے میں گنجائش نہیں ہوتی۔ تعلیم کا معاشرے سے بڑا گہرا اور براہِ راست تعلق ہے جو مختصراً یہ ہے کہ تعلیم معاشرے کو مطلوبہ سمت میں نشوونما کے لئے درکار افراد فراہم کرتی ہے۔ افراد سے ہی معاشرہ وجود میں آتا ہے اور ان میں تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افراد اپنے معاشرہ کو مخصوص سمت ترقی دیتے ہیں۔ لوگ مخصوص پہلو پر اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے اور بعد میں معاشرے میں اپنی خدمات انجام دے کر معاشرتی عمل میں جذب ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی معاشرہ سائنس و ٹیکنالوجی کی سمت پیش قدمی کرنا چاہتا ہے تو وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم کے ماہرین کی بڑی ضرورت موجود ہو جانے کے سبب بڑی آسانی سے کھپت ہو جاتی ہے اور یہ معاشرہ ایسے ماہرین کو تحصیل علم کے بعد مصروفیت، عزت اور شخصی و علمی ارتقاء کے امکانات فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس رخ پر معاشرے کی ترقی ہونا ممکن ہو جاتی ہے۔ ایسا معاشرہ جو دینی اہداف و مقاصد کی بجائے خالصتاً مادی ترقی پر کار بند ہو، تو ایسے معاشروں میں دینی علوم کے ماہرین کی کھپت تو دور کی بات، ان کی صلاحیتوں سے استفادہ بھی نہیں کیا جاتا، یوں اس مخصوص میدان میں ان کی صلاحیتیں پروان چڑھنے سے بھی محروم رہ جاتی ہیں اور معاشرہ اس سمت تنزل کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں دینی تعلیم یافتہ حضرات کو حالات پر انحصار کرنے کی بجائے دو میدانوں میں کام کرنا پڑتا ہے، دینی اہداف کی تکمیل کے لئے دینی خدمات اور اپنے معاش کے لئے ایک ایسی متوازی مصروفیت جس کی معاشرہ کفالت مہیا کرتا ہو۔ ایک طرف درسگاہ سے سندِ فضیلت کے بعد معاشرہ میں اس کی ضرورت اور گنجائش کا پہلو قابلِ غور ہے تو دوسری طرف کسی بھی علم کی تکمیل اور اس میں مہارت بھی عملی زندگی میں اسے |