محترمی جناب حافظ مدنی صاحب زیدمجدہ‘ کی گفتگو میں یہ بھی آیا ہے کہ ’’حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ اگر کوئی شخص داڑھی مونڈ کر شیشہ دیکھے اور شیشہ دیکھ کر خوش ہو تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (محدث: صفحہ ۷۵) اگر حوالے سے مطلع فرمادیں تو شکرگزار ہوں گا۔ لذت وفرحت عموماً مرتکب ِگناہ کو حاصل ہوتی ہے۔عقیدہ کی کتابوں میں تو عموماً یہی ہے کہ مرتکب ِکبیرہ کافر نہیں ، البتہ اگر وہ اسے حلال اور جائز سمجھ کر کرے تو پھر کافر ہوتا ہے۔اگر امام صاحب کایہ قول صحیح طور پر مل جائے تو دعوتی نقطۂ نظر سے بہرحال مؤثر ہے۔ حیرت ہوتی ہے ان حضرات کی اس رائے پر کہ میڈیا پر آنے والی تصویر کا حکم وہ نہیں جو تصویر کاہے۔ اسی طرح یہ بھی عجیب بات کہی گئی کہ تصویر کی حرمت کاحکم اسی تصویر کے ساتھ خاص رکھا جائے جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تصویرسمجھی جاتی تھیں ۔ حالانکہ یہاں تو ممانعت و حرمت ’تصویر‘ کی ہے اور ظاہر ہے کہ جسے عرفِ عام میں تصویرسمجھاجائے گا، وہ تصویر حرام ہی ہوگی۔’بت‘ صرف پتھر یا لکڑی کے ہی نہیں ، پلاسٹک کے بھی بنالئے جائیں تو وہ بت ہی ہوں گے۔ ’شراب‘کی شکل و ہیئت آج تبدیل ہوگئی ہے تو وہ بہرحال شراب ہی ہے۔ اس لئے وقت بدلنے یا شکل وصورت میں فرق آجانے سے حکم میں تبدیلی محض طفل تسلی بلکہ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ تصویر کی حرمت بہرحال منصوص ہے، اس لئے اسے اپنے اصل پر ہی رہناچاہئے اورحرام کو حلال بنانے کی سعی ٔنامشکور سے گریز کرنا چاہئے اور فَیُحِلُّوا مَاحَرَّمَ اﷲُ کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔ رہی میڈیا پر تبلیغ دین اور دفاعِ اسلام کے پروگرام پر تصویر تو اس کا جواز ضرورۃً و اکراہاً ہے۔ اس بے لگام معاشرے میں بھانت بھانت کی بولیاں ، روشن خیالی کے جوازمیں اُلٹے سیدھے فتوے، منصوص اور اجماعی مسائل میں انحراف اور تجدد پسندی، اسلام کی تعبیر و تائید کی بجائے تجدد کی نت نئی راہیں ، احادیث کا استخفاف اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اس بات کا متقاضی ہے۔علماے کرام اس میدان میں اُتریں اور اسلام کی صحیح تعبیر سے آگاہ کریں ۔ اس میں اُنہیں تبلیغ دین کا فریضہ اداکرنے کی فکر سے شامل ہونا چاہئے، اپنے تعارف اور نئے نئے |