Maktaba Wahhabi

61 - 62
لحن سے بچ سکیں ، لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کے بعد خاص طور پر اس امر کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ (الاعتصام از امام شاطبی رحمہ اللہ : ۱/۲۷۰) ٭ شاطبی رحمہ اللہ سے قبل امام قرافی رحمہ اللہ (م۶۸۴ھ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’الفروق‘ کے آخری فرق (نمبر ۲۷۴) میں یہ عنوان قائم کیا ہے: قاعدہ: دعا میں کیا مکروہ ہے اور کیا مکروہ نہیں ہے؟ جس کا خلاصہ حسب ِذیل ہے: ’’دعا تو اصلاً مندوب فعل ہے، لیکن بعض عوارض کی بنا پر یہی دعا حرام ہوجاتی ہے یا مکروہ اور اس کے پانچ اسباب ہوسکتے ہیں : 1. جگہ کے اعتبار سے کہ جہاں دعا کی جارہی ہے جیسے کنیسہ، حمام، نجس اور گندی جگہ، شراب خانہ وغیرہ۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات جگہوں پر دعا کرنے سے منع فرمایا ہے : کوڑے کے ڈھیر، مذبح خانہ، مقبرہ، لوگوں کے چلنے کا راستہ، حمام، اونٹوں کا باڑہ اور بیت اللہ کی چھت۔(سنن ترمذی:۳۴۶) گو اس حدیث کی اسنادقوی نہیں ہے۔ 2. ہیئت کے اعتبار سے: یعنی انسان اونگھتے ہوئے یا خوب کھا پی کر یا بیت الخلا جانے کی شدید حاجت کے وقت دعا کرے کہ یہ حالتیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے منافی ہیں ۔ 3. دلوں کی پراگندگی اور فخر و غرور کا اندیشہ ہو:اس لئے امام مالک رحمہ اللہ اور علما کی ایک جماعت نے ائمہ مساجد کے لئے فرض نمازوں کے بعد جہری طور پر اجتماعی دعا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ اس طرح امام کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ مقتدیوں سے بہتر ہے اور اللہ اور بندوں کے درمیان بندوں کی حاجتیں پورا کرنے کے لئے اسے واسطہ سمجھا گیا ہے اور ان خیالات کی بنا پر اوّل تو اس کانفس پھول جائے گا اور بجائے اللہ کی اطاعت کے، نافرمانی کا زیادہ امکان رہے گا۔ مروی ہے کہ بعض ائمہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نماز کے بعد اپنی قوم کے لئے دعا کرنے کی اجازت چاہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تمہارا نفس اتنا پھول جائے کہ کہیں ثریا تک نہ پہنچ جائے۔‘‘ 4. ایسے کام پر مدد حاصل کرنے کی دعا کرے جو پیشے کے اعتبار سے نچلے درجے کا ہو جیسے
Flag Counter