روکتی۔ وہ بلا کھٹکے اپنے جد ِامجد اسماعیل علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام کا دن منا سکتے تھے۔ پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو چھوڑے رکھا تو اس کا چھوڑنا ہی سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس کا کرنا بدعت کہلائے گا۔ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنے کو بھی اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ (ج) فقہ و فتویٰ کے اعتبار سے ٭ اس موضوع پر امام شاطبی رحمہ اللہ کے دلائل کا خلاصہ پیش کرتے ہیں : 1. آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تشریع (شریعت قائم کرنا) کا ظاہر ہونا بعد کے زمانوں سے اولیٰ تھا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو اس کا نہ کرنا ہی سنت ہوگا۔ 2. آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون مستجاب الدعوات ہوسکتا ہے اور اگر نمازوں کے بعد اجتماعی دعا اس مقصد کے لئے مفید ہوتی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے یہ کام کرتے اور خاص طور پر جب دن میں پانچ مرتبہ اس کا موقع مل رہا ہو۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو ایسا نہ کرنا ہی مطلوب ہے اور پھریہ بھی ملاحظہ ہو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایسی اجتماعی دعا میں تو وہ برکت نہیں ہوسکتی جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے موجود تھی۔ 3. لوگ اس بات کے شدید حاجت مند تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں ایسی دعائیں سکھلائیں جو ان کے لئے باعث ِخیروبرکت ہوں اور اس کام کا بہترین وقت نماز کے بعد کا تھا کہ جب لوگ کثرت سے مسجد میں موجود رہتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ اُمت کو دعائیں سکھائیں ، لیکن بطورِ تعلیم؛ دعا کی توسری طور پر اپنے لئے بھی اور اُمت کے لئے بھی، البتہ اجتماعی دعا کا اہتمام نہیں کیا۔ 4. مسلمانوں کو نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر تعاون کا حکم دیا گیا ہے۔ (المائدہ:۲) نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا مانگنا بھی اس کی ایک بہترین شکل ہوسکتی تھی کہ اس کام میں سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سبقت لے جانا چاہئے تھا، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو ایسا نہ کرنا ہی بہتر ٹھہرا۔ 5. عام لوگ، عربی زبان میں پوری مہارت نہیں رکھتے، دعا کرتے وقت لحن (غلطی ) بھی کرسکتے ہیں ۔ اس لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کی خاطر بھی اجتماعی دعا کرسکتے تھے تاکہ لوگ |