اب دیکھیں کہ نماز کے بعد اجتماعی دعا کا موقع بھی ہے اور وقت ِاجابت بھی۔ مسلمانوں کی حاضری بھی ہے، ایک خیر کی طرف سبقت لے جانے کا عظیم موقع بھی ہے، لیکن ان تمام دَواعی (طلب یا کشش) کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی دعا نہیں کی تو پھر اس کا نہ کرنا ہی سنت ٹھہرا۔ ٭ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے تو اس کی ایک تعریف تو حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتی ہے: ((من عَمِل عملًا لیس علیہ أمرنا فہو رَدّ)) یعنی ’’جس نے وہ کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ یا بالفاظِ دیگر جو کام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے مطابق نہیں ہے تو وہ قابل ردّ ہے اور پھر علماے اُصول میں سے امام شاطبی (م ۷۹۰ھ) نے بدعت کی تعریف یوں کی: وہ امر جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس کے کرنے کا داعیہ (طلب) پایا گیا ہو اور کوئی مانع بھی نہ پایا گیا ہو۔ مثال کے طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بروایت ِعائشہ رضی اللہ عنہا اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں کعبہ کو از سر نو قواعد ِابراہیم علیہ السلام کے مطابق بنانا چاہتا ہوں اور وہ اس طرح کہ اس کے دو دروازے ہوں ، ایک داخل ہونے کے لئے اور دوسرا باہر نکلنے کے لئے۔ لیکن صرف اس وجہ سے ایسا نہیں کرپارہاہوں کہ تمہاری قوم نئی نئی اسلام میں داخل ہوئی ہے، یعنی اگر ایسا کیا گیا تو یہ لوگ بدک جائیں گے اور کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہر چیز بدل ڈالی یہاں تک کہ کعبہ کو بھی نہ چھوڑا۔ گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام کرنا چاہتے تھے، لیکن ایک رکاوٹ حائل تھی جس کی بنا پر یہ کام نہ کیا۔ چنانچہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت ِحجاز میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کی تکمیل کردی، کیونکہ اس وقت تک وہ رکاوٹ ختم ہوچکی تھی جس کا خدشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہر کیا تھا۔ لوگ اسلام میں راسخ ہوچکے تھے اور کعبہ کی ازسرنو مکمل تعمیر پراُنہیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ مکمل تعمیر سے مراد حطیم کے حصہ کو بھی کعبہ کی عمارت میں لانا مقصود تھا جو اہلِ عرب زمانۂ جاہلیت میں نہ کرپائے تھے، ہوا یہ تھا کہ سیلاب کی وجہ سے کعبہ کی عمارت بوسیدہ ہوگئی تھی۔ چنانچہ اہل عرب نے دوبارہ اس کی تعمیر کی، لیکن شرط یہ رکھی کہ صرف اپنے پاکیزہ اموال اس کی تعمیر میں صرف کریں گے، اس طرح وہ صرف اتنی عمارت مکمل کرپائے جتنی ان کے اموال |