Maktaba Wahhabi

57 - 62
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ (ب) اُصولِ فقہ کے اعتبار سے :سنت اُصولِ فقہ کے اعتبار سے احکامِ خمسہ میں سے ایک حکم ہے یعنی فرض، سنت، مباح، حرام اور مکروہ۔ احناف کے نزدیک دو اَحکام زائد ہیں یعنی فرض کے ساتھ واجب اور مکروہ تحریمی کے ساتھ مکروہ تنزیہی کا اضافہ کیا گیا۔ اس تقسیم کے اعتبار سے سنت جسے مندوب اور مستحب بھی کہا گیا، وہ امر ہے کہ جس کے کرنے پر ثواب اور جس کے چھوڑنے پر گناہ نہ ہو۔ البتہ سنت اگر مؤکدہ ہو یعنی جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر کیا ہو یا کرنے کی تاکید کی ہو تو اس کے چھوڑنے پر انسان قابلِ ملامت ٹھہرے گا۔ اس اعتبار سے اجتماعی دعا نہ سنت ِمؤکدہ ٹھہرتی ہے اور نہ غیر مؤکدہ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصلاً نمازوں کے بعد اجتماعی دعا منقول ہی نہیں ، البتہ انفرادی دعا مطلق سنت کے ذیل میں آتی ہے۔ سنت کو اگر بدعت کے مقابلہ پر رکھا جائے تو سنت بھی دو طرح کی ہوگی: فعلی یا ترکی یعنی جس چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا، وہ سنت ِفعلی ہے اور جس چیز کو کرنے کی طلب کے باوجود نہیں کیا وہ سنت ِترکی کہلائے گی یعنی اس کا چھوڑنا ہی سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ مثلاً عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو چھینکنے کے بعد یہ کہتے سنا کہ الحمد ﷲ والصلاۃ والسلام علی رسول اﷲ ابنِ مسعود نے فوراً اسے تنبیہ کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر صر ف الحمدﷲ کہا تھا اور اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا تھا۔ الصلاۃ والسلام علی رسول اﷲ کہنے کے کئی دوسرے مواقع ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ نامی کہے تو یہ الفاظ کہے یا سنے تو درود پڑھے۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت یا باہر نکلتے وقت دعا کے ساتھ درود کے مندرجہ بالا الفاظ کہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حرمِ مکی میں داخل ہوئے، طواف شروع کرتے وقت حجراسود کو بوسہ دیا اور پھر رُکنِ عراقی، رکنِ شامی اور رکنِ یمانی تینوں کا استلام کیا (یعنی اُن پر ہاتھ پھیرا) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فوراً اُنہیں ٹوکا کہ رکنِ عراقی اور رکنِ شامی کا استلام کرنا سنت نہیں ہے۔ حضرت معاویہ نے کہا: میرے نزدیک کعبہ کا کوئی ستون بھی مہجور (قابل ترک) نہیں ہے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ارکان پر ہاتھ نہیں پھیرا اور بالآخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس بات کو تسلیم کرلیا۔
Flag Counter